|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2015

بلوچستان کی سیاست نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اصولوں کی پاسداری بھی دیکھی، انحرافات کا مشاہدہ بھی ہوا ،تاریخ کے صفحات پر بہت سارے تضادات بھی درج ہیں۔ قید و بند کی مشکلات سے کئی رہنماء دو چار ہوئے۔ سیاسی رفیق اور دوست ایک وقت میں سخت ناقد بن گئے۔ کبھی کوئی غدار تو کبھی کوئی ہیرو کے لقب سے نوازا گیا ۔ پچھلے دنوں جان محمد دشتی کی کتاب Esssays on Baloch National Struggle In Pakistanکی ورق گردانی کررہا تھا کہ نظر ایک تصویر پر پڑی جس میں مزاحمت کار نواب محمد اکبر خان بگٹی کے سامنے ہتھیار پیش کررہے ہیں یعنی شدت پسندی کا راستہ ترک کرکے خود کو قانون کے حوالے کیا جارہاہے۔یہ سال 1973ہے اور نواب بگٹی گورنر تھے ۔ نیچے درج ہے Governor Bugti receving arms froms rebal leaders of Jhalawan as a token of their laying down arms and surrendering to Government authority. چنانچہ حالات نے کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ نواب محمد اکبر خان بگٹی نے خود مزاحمت کا راستہ چن لیا اور انہی کٹھن شب و روز میں اپنی جان بھی دیدی اور بلوچ تاریخ کا انمٹ حصہ بن گئے ۔ تب نواب بگٹی کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا تھا ۔آج نواب بگٹی کے پوتے نوابزادہ براہمداغ بگٹی سخت گیر سوچ کے حامل ہیں۔ یہ خاندان اپنے حقوق کیلئے سرکار سے متصادم ہے۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں نواب جنگیز مری کی چھپی تصویر نے حیرت و سوچ میں مبتلا کردیا کہ فراری ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں۔ نواب خیر بخش مری مزاحمتی سیاست کا نمایاں حوالہ تھے ۔ ان کے باقی صاحبزادے مزاحمت کی راہ پر اسوقت بھی چل رہے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست، فکر اور ترجیحات کے لحاظ سے بدلتی رہی ہے جس کا مشاہدہ ہم ماضی قریب میں بھی کرسکتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر سیاست پر بادشاہ گر اگرچہ چھائے ہوئے ہیں تاہم قوم پرست ،سیاست ایک مرکزی حوالہ ہے، جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ مذہبی سوچ و سیاست کی موجودگی ایک الگ باب ہے۔ گویا اس پس منظر میں بلوچستان، بلوچ اور پشتون سیاست میں منقسم ہے۔ بلوچ قوم پرستی کی اپنی شکلیں ہیں اور اس میں علیحدگی کی سوچ برابر چلی آرہی ہے۔ پشتون سیاست کے دائروں میں عبدالصمد خان اچکزئی اور عبدالغفار خان کی سوچ قبل از تقسیم اور بعد از تقسیم فکری مبادیات میں شامل ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ،عبدالصمد خان اچکزئی کی فکر کی ارتقائی شکل ہے اور عوامی نیشنل پارٹی ،عبدالغفار خان کی فکر و نظر کے چشمہ سے سیراب ہورہی ہے ۔ پشتونخو املی عوامی پارٹی صوبے کی بڑی پشتون قوم پرست جماعت ہے۔ دونوں پشتون جماعتیں ہیں ۔ نظریات اور ترجیحات کا فرق ہے بلکہ اختلاف بھی ہے جس کا اہم نکتہ بلوچستان کے پشتون خطے اور خیبر پشتونخوا پر مشتمل متحدہ صوبہ یا جنوبی خطے پر الگ پشتون صوبے کا قائم ہونا ہے ۔5 مارچ 1948 کو غفار خان پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر ہی میں بیان کردیا تھا کہ پاکستان کے اندر ایک خود مختار پختون صوبہ قائم کیا جائے ۔ اسی خطاب میں آگے جاکر کہا کہ ،ہم پختون ہیں اور پختو نستا ن چاہتے ہیں اور ہم ڈیورنڈلائن کے اس جانب (پاکستان کے اندر ) رہنے والے سارے پختونوں کو پختونستان میں متحد و مجتمع کرنا چاہتے ہیں ۔ ون یونٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی متحدہ پشتون صوبہ کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ۔ خیر موضوع کی طرف آتے ہیں یہ کہ بلوچستان کے اندر عوامی نیشنل پارٹی مضبوط تنظیم رکھتی ہے ، البتہ ان کی پارلیمانی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے صوبے کی بڑی سیاسی شخصیات وابستہ رہی ہیں اور اب بھی ہیں ۔ گویا پشتون اضلاع میں جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان سبقت کی کشمکش ہے ،جس میں برتری اولذکر دو جماعتوں کو حاصل ہے۔ اس صوبے میں جماعتوں کو ووٹ قبائل کی بنیاد پر بھی ملتے ہیں ۔ سبی زیارت کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے نواب خان ترین 1993 میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد2008ء میں انجینئر زمرک خان اچکزئی پی بی 12قلعہ عبداللہ سے اور سلطان ترین پی بی22ہرنائی سے کامیاب ہوئے۔ سلطان ترین بے زبان آدمی تھے، اسمبلی میں ہونے کے باوجود پس منظر میں تھے،ان کے پاس جیل خانہ جات کی وزارت تھی۔ البتہ انجینئر زمرک خان اچکزئی فعال رہے ،ان کے پاس ریونیو کی وزارت تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں دوبارہ پھر کامیاب ہوئے اور حزب اختلاف کا حصہ ہیں ۔ اس وقت اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی ایک نشست کے ساتھ موجود ہے۔ زمرک خان تیز اور معاملہ فہم پارلیمنٹرین ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہونے کے باوجود 2012ء میں سینیٹ الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بلوچستان سے داؤد خان اچکزئی کو سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب ہوئے اور ایسا ان کی وسعت نظر، حکمت اور اچھے تعلقات کی بنیاد پر ہی ممکن ہوا۔ حالانکہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی نے ساتھ دینے کی بجائے مسائل کھڑے کردیئے تھے۔ ذہنی کوفت میں زمرک خان اچکزئی تب بھی مبتلا کردیئے گئے تھے جب نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کے خلاف ہزارہ برادری کے دھرنے کو جواز بنا کر گورنر راج کے نفاذ کے لئے ایک سیاسی مہم اٹھائی گئی تھی ۔ عوامی نیشنل پارٹی اسلم رئیسانی حکومت میں اتحادی تھی اور اہم وزارتیں ان کے پاس تھیں۔ پارٹی تنظیم نے پارلیمانی قائد کی رائے کو پس پشت رکھا اور حکومت کے خلاف بولتی رہی ۔یہاں تک کہ بلوچستان میں گورنر راج کی حمایت کا اعلان اسفند یار ولی خان نے بھی کردیا حالانکہ یہ فیصلہ درست نہ تھا۔ جہاں تک میری معلومات ہیں صوبائی تنظیم زمرک خان سے اختلاف کی بناء پر سیاسی سازش کا حصہ بن گئی تھی، جس کا ادراک بعد میں اسفند یار ولی کو ہوا۔ اب اگر نواب رئیسانی کی حکومت غافل اور گنہگار تھی تو گو یا اسفند یار ولی نے گورنر راج کی حمایت کرکے اپنی پارٹی کو بھی نااہل اور گنہگار ثابت کیا۔ بلوچستان کے اندر بلوچ پشتون برابری کی منطق کبھی اچھلتی ہے تو کبھی زیر پا نظر آتی ہے۔اصولی طور پر یہ ایک صوبہ ہے اور صوبے کے اندر عوام کے یکساں حقوق ہیں۔ اس بنیاد پر عہدوں خاص کر سیاسی عہدوں کی تقسیم کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ جیسے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے حالیہ انتخاب میں پھر ہوا۔ کہا گیا کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بلوچوں کو دیا جائے گا ۔اگر یہ عہدہ بلوچستان کو دینے کی بات ہوئی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس سے کسی تفریق کے تاثر کی نفی بھی ہوتی۔ نیز سیاست میں لے دے کا اصول ہوتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر داؤد خان اچکزئی ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ کے لئے آگے آئے تھے ، لیکن ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔11مارچ کو اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر اجلاس ہوا جس میں محمود خان اچکزئی ، مولانا فضل الرحمان، سینیٹر داؤد اچکزئی اور سینیٹر حاجی عدیل سمیت اور بھی رہنما ء شریک تھے۔ جب بات داؤد خان کی بطور ڈپٹی چیئرمین کی نامزدگی کی ہوئی تو انہیں منع کیا گیا ،بلکہ محمود خان اچکزئی نے مطلع کیا کہ ان کی اسفند یار ولی خان سے بات ہوئی ہے جنہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بلوچوں کا حق ہے۔ جمعیت علمائے اسلام مذہبی جماعت ہے، مولانا عبدالغفور حیدری اس بناء پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کئے گئے کہ وہ بلوچ ہیں۔ اگر صوبے اور اس کے مفاد کو مقدم سمجھا جاتا تو حافظ حمداللہ بھی تو سینیٹر ہیں۔ داؤد خان اچکزئی کو نامزد کرتے تو اس سے خود عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست پر کم از کم بلوچستان کی حد اتک اچھے اثرات پڑتے ۔ لیکن انہیں موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسفند یار ولی اور حاجی عدیل ایک الگ اجلاس میں انہیں دستبردار کراتے ،یوں چودھری شجاعت کے گھر میں سب کے سامنے یہ کہنا کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بلوچوں کا حق ہے اور اس پر مزید بات نہ کی جائے، جس سے سینیٹر کا عزت نفس یقیناًمجروح ہوا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کوئی اپنے مقصد کے تحت تو بلوچستان کو دو قوموں میں تقسیم کردیتا ہے جب کسی اور کی باری آتی ہے تو بلوچوں کے غمخوار بن جاتے ہیں۔ زمرک خان اچکزئی اور داؤد خان اچکزئی کے خاندان کی عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بڑی قربانیاں ہیں اور بڑے مشکل اور کٹھن حالات میں سیاست کررہے ہیں بلکہ انہیں بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر اسی طرح جگہ جگہ اپنی جماعت ان کو لائق اعتنا نہیں سمجھے گی تو ممکن ہے کہ یہ حضرات اپنے لئے الگ راستہ چن لیں۔ عین اس نوعیت کے رویے جماعتوں کے اندر افراط و تفریط کا سبب بن جا تے ہیں ۔ بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی موجود ہے لہذا اچھی سوچ ،حکمت اور تدبیر سے اس کی طاقت اور حیثیت مزید بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے ۔