|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2015

2010 میں طوفانی بارشوں کے بعد دریائے دشت اور تیراں دسک نامی پہاڑی نالے کی سیلابی ریلوں کا نشانہ بننے سے قبل سو ئی ، ضلع گوادر کے سنٹسر نامی سب تحصیل کا ایک بڑا اور بارونق گاؤں رہا ہے۔ مگر اب اس گاؤں کے اکثر خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ باقی ماندہ مکین ایک اونچے اور محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے ہیں جہاں پانی اور چارہ کی کمی اور مچھروں کی بہتات انکی روزمرہ زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ادھیڑ عمر دوستین گزابیگ سوئی کے بزرگ اور لوگوں کے سر براہ ہیں۔ فالج کے باعث صاحب فراش ہونے کے باوجود، گاؤں کے معاملات میں انکی دلچسپی اور شرکت میں کمی نہیں آئی ہے۔ سوئی میں شمسی توانائی سے بجلی کی فراہمی سے ان سے زیادہ خوشی شاید ہی کسی کوہوئی ہوگی۔ ’’ ہا ں ، میں بیحد مطمئن ہوں‘‘ پوچھے جانے پر انہوں نے بتایا۔’’ جب لوگوں نے گوادر اور دیگر شہروں کے لئے نقل مکانی کی تو مجھے اپنا گاؤں چھوڑ کر نہ جانے کے فیصلے پر کچھ افسوس سا ہوا مگر آج ہم سب خوش ہیں اور مجھے سوئی میں رکے رہنے پر کوئی تاسف نہیں‘‘۔ سب تحصیل سنٹسر ضلع گوادر کا ایک دور افتادہ اور بیشتر بنیادی سہولیات سے محروم علاقہ ہے جو ا سلامی جمہوریہ ایران کی سر حد کے قریب واقع ہے ۔یہاں دریائے دشت کی طغیانیوں پر لوگوں کی کھیتی باڑی اور روزگار کا انحصار رہتا ہے۔ جن کے تواترمیں دریا کے اوپرمیرانی ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے کمی آنے کے سبب یہاں کے مکین روزگار کے دیگر ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ علاقے کے کچھ صاحب حیثیت خاندان جنریٹر کے ذریعے بجلی حاصل کرتے رہے ہیں مگر بہت بڑی اکثریت کے لئے اپنے گھروں میں روشنی کا انتظام کرنا روزمرہ کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ لکڑی اور مٹی کے تیل کے بعد اب بیٹریزپر چلنے والے ایل سی ڈی لائیٹ کا استعمال کیا جاتاہے مگر دوستین گزابیگ کے الفاظ میں ہر ماہ ہزار بارہ سو روپے اس مد میں خرچ کرنا لازمی ہے۔ گاؤں کے جوہڑ جن میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتاہے موسم گرما میں مچھروں کی افزائش گا ہ بن جاتے ہیں جن سے ملیریا اور دیگر امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔ ناہموار اور کچے راستوں کی وجہ سے اس علاقے کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اور ان پر عملدرآمد بیحد مشکل ہے۔ اسلئے جب مٹینگ نامی گاؤں کی سر کردہ شخصیت میر موسیٰ اور پُتان کے حاجی عبدالرحمن کو گذشتہ سال آر سی ڈی کونسل گوادر کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکومت اور عوام کی طرف سے اپنے علاقے کے لئے ملنے والی اس گرانٹ کا علم ہوا تو ان کیلئے منصوبے کے آغاز کا انتظار کرنا محال ہوگیا تھا اور کوئی ہفتہ ایسا نہ گزرتا کہ وہ خود یا ان کاکوئی پیغام لانیوالا تازہ ترین صورتحال جاننے گوادرنہ پہنچتا۔ مگر اب وہ پرسکون ہیں کیونکہ ان کے گاؤں سب تحصیل سنُٹسر کے ان پانچ اولین دیہات میں شامل ہیں جہاں یو ایس ایڈ کے سمال گرانٹ اینڈ امبیسیڈر فنڈ کی مالی معاونت سے گرین انرجی فار یونین کونسل سنٹسرنامی منصوبے کے تحت ہر گھر کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی فراہمی کی گئی ہے۔ داد شاہ بازارذاہران ، لال محمد بازار زاہران، مٹینگ، پُتان اورسوئی کے علاوہ سب تحصیل سنٹسر کے دیگر درجن بھر سے زیادہ دیہات اب بھی بجلی سے محروم ہیں جن کے لئے ضلع کونسل گوادر کے نومنتخب چئیرمین بابو گلاب شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی فراہمی کو سب سے سستا ، آسان اور پائیدار ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آر سی ڈی کونسل گوادر کے سید ہاشمی آڈیٹوریم میں گرین انرجی فار یونین کونسل سنٹسرمنصوبے کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوکروڑ روپئے میں پانچ مختلف دیہات کے تین سو انچاس گھروں کو بجلی کی فراہمی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ توانائی کے متبادل اور قدرتی ذرائع کے استعمال کو فروغ دیکر اور حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی کرکے ملک میں اور خاص طور پر بلوچستان میں جہاں آبادی بکھری ہوئی ہے، بجلی کے مسئلے کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غیر سرکاری شعبے میں اکثر منصوبوں سے مستفید ہونے والوں کا پتہ ہی نہیں چلتا مگر یہ ایک منصوبہ ہے جس سے فائدہ اٹھانے والے خود اپنے منہ اس کی تعریف کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے سُنٹسر کے لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ گوادر والوں سے زیادہ خوش قسمت ہو کہ آپ کو ایسی بجلی ملی ہے جس میں نہ بل کی پریشانی ہے اورنہ ہی لوڈشیڈنگ اور لائن مین کا جھنجھٹ ہے۔ واضح رہے کہ گوادر سمیت مکران کے دیگراضلاع یعنی کیچ اور پنجگور کو بجلی مکران گرڈ سے فراہم کی جاتی ہے جو ہمسایہ ملک ایران سے حاصل کی جاتی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اعتبار سے شاید مکران ڈویژن ملک کا سب سے خوش قسمت علاقہ ہے۔ تاہم مکران کے دور افتادہ دیہی علاقوں کی بڑی تعداد اب بھی بجلی کی سہولت سے نا آشنا ہے۔ 2010 میں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) نے یو ایس ایڈ کی سمال گرانٹ پروگرام کے تحت ضلع گوادر میں کلگ کلانچ نامی علاقے میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ متعارف کرایا۔ ایل ایس او کلگ نامی ایک مقامی سماجی تنظیم کے تعاون سے کلگ اور آس پاس کے دیہاتوں کے دو سوگھروں کو سولر پینل سسٹم فراہم کئے گئے جس کے بعد مذکورہ علاقے کے اندھیرے اجالوں میں بدل گئے۔ اس منصوبے کی کامیابی سے متاثر ہو کر اور یو نین کونسل سنٹسر کی پسماندگی اور شہری مراکز سے دوری کو مدنظر رکھتے ہوئے آر سی ڈی کونسل گوادر نے سنٹسر میں توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ تیار کر کے یو ایس ایڈ کے سمال گرانٹ امبیسیڈر فنڈپروگرام کو مالی معاونت کے لئے پیش کیا۔ جسے 2013 میں فنڈنگ کے لئے منظور کیا گیا اور فروری 2014 میں منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔امریکی عوام کی تعاون سے یوایس ایڈ اور آرسی ڈی کونسل گوادرکی جانب سے جاری گرین انرجی فار یونین کونسل سنٹسر نامی اس منصوبے کے پراجیکٹ منیجر عبدالوہاب کے مطابق فنڈز کی محدود دستیابی کے باعث صرف پانچ دیہات میں بجلی فراہم کی جارہی ہے جن کا انتخاب کوسٹل ہائی وے سے انکے فاصلے پر کیا گیا ہے کیونکہ اس صورت میں یہاں حکومت کی جانب سے بجلی کی فراہمی کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ دراصل مکران گرڈ کی ٹرانسمیشن لائن بھی کوسٹل ہائی وے کیساتھ ساتھ چل رہی ہے‘‘۔ انہو ں نے مزید بتایا ’’ پانچ دیہات کے تمام تین سو اکتالیس گھرانوں اور آٹھ بنیادی مراکز صحت اور پرائمری اسکولوں کو سولر پینل یونٹ کی فراہمی اور تنصیب منصوبے کا ہدف تھا جس پر کام مکمل ہوچکا ہے‘‘۔ منصوبے کے ابتدائی دو ماہ میں سوشل دیہات کے لوگوں کو منصوبے کی تمام تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ، ہر گاؤں کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی اور فی گھرانہ ایک یونٹ کے کل لاگت کی صرف پانچ فیصدبطورکمیونٹی کے حصہ کے طور پر جمع کیا گیا جس کو گھروں میں بجلی کاکام کرنے، انرجی سیور اور پنکھے لگانے پر استعمال کیاگیا جبکہ ایک مختصر رقم پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد سسٹمز کی مرمت کے سلسلے میں محفوظ کی گئی ہے ۔ اس رقم کا استعمال ایک کمیٹی کی سفارشات پر کیا جائے گا جس میں مذکورہ تمام دیہات سے ایک ایک نمائندہ شامل ہے۔ منصوبے پر دو کروڑبیس لاکھ روپے سے زائد کی لاگت آئی ہے اور جنوری 2015 میں اس پر عملدرآمد مکمل کی گئی ہے۔ چونکہ بجلی کی فراہمی سے روزانہ کے گھریلو کاموں کی انجام دہی میں سہولت ہوجاتی ہے اس لئے سُنٹسرمیں خواتین اپنے گھروں پر نصب سولر پینلز کی صفائی اور حفاظت کے حوالے سے بیحد حسا س ہیں۔ اس سوال پر کہ آپ بیٹری اور انورٹر کا کس طرح خیال رکتھے ہیں، ماہتاپ نامی خاتون نے بتایا کہ گرد کی صفائی اور چھوٹے بچوں اور جانوروں سے مشینوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ’’ہمیں گوادر سے آنے والی باجی نے ان کی صٖفائی اور استعمال کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا ہے۔گاؤں کی ساری عورتیں اس بارے میں بہت ہی حساس ہیں اور کیوں نہ ہوں، اتنے انتظار کے بعد ہمیں بجلی کی سہولت ملی ہے ۔ ہمارے بچوں کو گرمی اور مچھروں سے نجات ملی ہے۔ ہم تو ہاتھ اٹھا اٹھاکر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کو آباد رکھے اور غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق دے‘‘۔ چوڑ سوئی کے اکبر کہدہ باہوٹ بھی اپنے گاؤ ں میں سولر پینلز کی تنصیب کے کام میں پیش پیش رہے ہیں۔ وہ شمسی توانائی کے ذریعے حاصل شدہ بجلی کا سب سے بڑا فائدہ ہر خاندان کے علاج معالجے اور تیل یا بیٹریز کے اخراجات میں کمی کو سمجھتے ہیں۔ ’’ ڈاکٹر یا dasht2 دوا ئیوں یا بیٹریز کی قیمت کے علاوہ ڈاکٹر کے پاس مریض کو لیجانے یا بیٹریز خریدنے کے لئے آنے جانے میں جو وقت اور پیسہ خرچ ہوتاتھا اس کا پورا کرنا غریبی کے اس دور میں بہت مشکل ہے۔ اب پنکھوں کی وجہ سے ہم مچھروں سے قدرے محفوظ ہیں اور ہمارے بچوں کی صحت ببہتر ہورہی ہے۔‘‘ اکبر کے تین بچے ہیں جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی اسکول جارہے ہیں جبکہ دوسرا بیٹا ابھی چھوٹا ہے۔‘‘ اکبر نے مزید بتایا کہ اب یہاں زیادہ تعداد میں میزری کی ٹوکریاں، چٹائیاں اور دیگر اشیا ء تیار کی جاتی ہیں کیونکہ اب رات کے اوقات میں بھی بُنائی کا کام کیا جاتا ہے۔ اس سے گاؤں کے گرایب ترین خاندانوں کی حالت میں تھوڑی سی تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ سنٹسر کے مختلف دیہات میں سولر پینلز کی تنصیب اور گھروں کی وائرنگ کا کام کراچی کے نظام انرجی سے منسلک گوادرکے مقامی ٹیکنیشنزکی ایک ٹیم نے کیا جس کی سربراہی عبدالشکورکررہے تھے۔ ٹیکنیشن عبدالشکور دیہات میں کام کرنے کے اس تجربے کو اپنی ٹیم کے لئے بے حد اہم سمجھتے ہیں۔’’ اس کام کی بدولت ہماری ٹیم کو بزنس کا ایک وسیع علاقہ ملاہے جبکہ سُنٹسر کے دوسرے دیہات میں بھی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شمسی توانائی کا پینلز خرید رہے ہیں جن کی تنصیب کے لئے ہماری خدمات حاصل کی جاتی ہیں‘‘۔ اس منصوبے کے تحت مستفید ہونے والی ہر گاؤں سے ایک ایک نوجوان کو گوادر میں بجلی کے آلات کے استعمال اور سولر یونٹس کی مرمت اور دیکھ بھال کی تین روز کی مکمل ٹریینگ بھی دی گئی ہے ۔ دیکھ بھال اور مرمت کے ابتدائی مسائل گاؤں کی سطح پر یہ نوجوان خود ٹھیک کرتے ہیں جبکہ بڑے اور پیچیدہ مسائل کے لئے گوادر رجوع کیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ضلع گوادر کے نومنتخب وائس چئرمین ہوت نعمت اللہ کا تعلق بھی سب تحصیل سنٹسرسے ہے۔ اختتامی تقریب میں انہوں نے آر سی ڈی کونسل گوادر اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت اور عوام کی جانب سے شروع کئے گئے اس منصوبے کو اپنے علاقے کے لئے بے حد اہم قرار دیا مگر ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے مستفید ہونے والے دیہات کی تعداد زیادہ ہونی چاہیئے تھی کیونکہ ان دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی پسماندگی سب کے سامنے ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں ان کو اولیت دی جائے۔ انہوں نے اس امر کو بھی خوش آئند قرار دیا کہ صوبائی حکومت گرین انرجی کے فروغ کے لئے الگ ڈیپارٹمنٹ قائم کرچکی ہے اور کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ گرین انرجی فار سنٹسر جیسے منصوبوں سے حکومتی ادارے بھی رہنمائی حاصل کریں گے۔