|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2015

وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یہ تسلیم کر ہی لیا کہ بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق موجودہ صورت حال اس بات کا متقاضی نہیں تھا کہ بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات کیے جائیں کیونکہ اس کا فائدہ نظر نہیں آرہا تھا اور نہ ہی کسی پیش رفت کی توقع کی جا سکتی تھی ۔ اگر تھوڑی بہت بھی پیش رفت کی توقع ہوتی تو وہ بار بار ملک سے باہر جاتے اور آتے لیکن ا س کے مجموعی فوائد کی عدم موجودگی میں انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔بہر حال صورت حال پر مزید غور کیا جارہا ہے ایک نیا منصوبہ یا ایک نئی حکمت عملی بنائی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی جس میں ٹھوس تجاویز سامنے رکھی جائیں گی ۔ انہوں نے نئی حکمت عملی کی تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ نہیں کیا شاید یہ ابھی قبل از وقت ہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ حل طلب ہے، آئے دن بلوچوں کو بیرونی ممالک کا ایجنٹ کہا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے آج دن تک کسی بھی ذمہ دار اعلیٰ افسر نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے ۔ بہر حال بلوچوں کو بھارت پاکستان محاذ آرائی میں بلا وجہ گھسیٹا جارہا ہے ۔ بھارت ہم پر یہ الزام لگار ہا ہے کہ ہم کشمیر میں مداخلت کررہے ہیں اور اس کے جواب میں پاکستانی حکمران اور اعلٰی سرکاری ملازمین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت ملوث ہے ۔ بھارت بلوچوں کا من پسند ملک نہیں ہے ، اگر ہوتا تو پاکستان بناتے وقت نواب اکبر بگٹی شہید بھارت کے حق میں ووٹ دیتے کہ بلوچستان کو بھارت میں شامل کریں ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بھارت کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے نواب بگٹی اور دوسرے بلوچ اکابرین ا ور رہنماؤں نے پاکستان کو منتخب کیا اور اپنی ذاتی مرضی اور قومی رضا سے منتخب کیا تھا کہ ہم پاکستان کا حصہ بنیں گے بلکہ انہوں نے اس رائے کی بھی مخالفت بھرپور انداز میں کی کہ بلوچستان کی قبائلی اور جاگیردارانہ ریاستیں ‘ ایران یا افغانستان میں شامل کیے جائیں ۔اس وقت ایران اور افغانستان کے لوگ پنجابیوں اور مہاجروں سے کم تر مسلمان نہیں تھے مگر بلوچستان اور اس کے رہنماؤں نے پاکستان کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا۔ جہاں تک موجودہ صورت حال کا تعلق ہے تو حکومتی مشینری اور اداروں نے بلوچستان میں نفرت ابھارنے کے وہ تمام حالات پیدا کیے خصوصاً پرویزمشرف اس کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ بھارت سے منسلک سرحدی علاقوں سے فوجوں کی واپسی کے بعد انہوں نے بلوچستان کا رخ اس نیت سے کیا کہ کسی بھی خود دار بلوچ کو سلامت نہیں چھوڑا جائے ۔ پہلے ایسے حالات پیدا کیے کہ مقامی اور شہری انتظامیہ ناکام ہو اور سارا نظام غیر سویلین حضرات کے ہاتھوں میں آجائے جس کو وہ اسلام آباد سے ذاتی طورپر کنٹرول کریں ۔ صرف یہی ایک وجہ ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کیے گئے اور ریاستی مشینری نے جان بوجھ کر خراب کیے۔ اس کے لئے بلوچوں نے احتجاج کا صدیوں پرانا طریقہ اپنایا اور بندوق لے کر اپنی جان اور عزت بچانے پہاڑوں پر چلے گئے ۔ سب کو معلوم ہے کہ ان پہاڑی لوگوں کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دس لاکھ سے زائد مسلح افواج ‘ پولیس ‘ ایف سی اور لیویز کو شکست دیں یا لاہور اور اسلام آباد پر دہشت گردانہ حملے کریں ۔ وہ صرف اپنے علاقوں میں موجود ہیں ۔ زیادہ تر اپنی جانیں بچاتے ہیں بلکہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ بلوچستان میں مزاحمت کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو تمام بلوچ اکابرین نے پاکستان کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ گورنر ‘ وزیراعلیٰ ‘ وزیر قومی وصوبائی اسمبلی کے اراکین رہے اور انہوں نے ایماندارانہ کوشش کیں کہ پاکستان میں انصاف پر مبنی نظام قائم ہو۔ چوروں اور ڈاکوؤں کی پاکستان پر حکمرانی نہ ہو مگر زیادہ طاقتور اور ٹھگ حکمرانوں نے ان شریف بلوچوں کو ٹھکانے لگا لیا اور فوجی کارروائی کی راہ ہر دورمیں ہموار کرتے رہے ۔ یہ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن ہے۔ برطانوی استعمارنے بلوچستان میں انہی وجوہات کی بنا پر 15بڑے فوجی آپریشن کرکے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا۔ قصہ مختصر کہ اگر حکومت حالات کو دوبارہ پر امن بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو وہ ہر طرح کے آپریشن نہ صرف بند کردے بلکہ فوجوں اور نیم فوجی دستوں کو دوبارہ ان کی اصل ڈیوٹی پر بھیجا جائے۔ پوری انتظامیہ منتخب صوبائی حکومت کے ماتحت شہریوں کے حوالے کیاجائے ۔شہری انتظامیہ پولیس کے حوالے کیا جائے، تمام گرفتار شدگان اور غیر اعلانیہ طورپر’’ غائب لوگوں ‘‘ کو بازیاب کیاجائے۔ صوبائی حکومت کو مکمل طورپر با اختیار بنایا جائے اور سرکاری ملازمین اپنا حکم چلانا بند کردیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بلوچ مزاحمت کاروں کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے مسلح افواج کو شکست دے سکیں۔ بلوچ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں وہ مہاجروں اور پنجابیوں سے زیادہ اچھے پاکستانی شہری ہیں ورنہ پاکستان کو نقصان کی صورت میں بلوچستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ ایسی صورت میں بلوچستان کے ایک بڑے حصے پر ایران اور دوسرے حصے پر افغانستان قابض ہوجائے گا اور بلوچستان کا نقشہ دنیا بھر سے غائب ہوجائے گا ۔