|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2015

کیسکو نے بہت سے شہروں میں بجلی گھروں کو بند کردیا ہے ۔ یہ تمام دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں گزشتہ ستر سالوں سے گریڈ اور ٹرانسمیشن لائنز قائم نہ ہوسکے ۔ ان لوگوں کو ستر سالوں سے بجلی کی جدید نعمتوں سے محروم رکھا گیا ہے بعض دوست ممالک اور ان کے حکمران یہاں شکار کے لئے آئے تو ان کے معلوم ہوا کہ پورے علاقے میں بجلی نہیں ہے لہذا انہوں نے امداد کے طورپر بعض علاقوں میں ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر تحفہ میں دئیے اور ان بڑے بڑے قصبوں ‘ جو آج کل شہروں کی شکل اختیار کر گئے ان کو تحفہ میں بجلی مہمانوں نے دی جو علاقے کے دور ے پر یا شکار کے لئے آئے تھے ۔ ریاست پاکستان نے ان لوگوں کو بجلی کی نعمت سے محروم رکھا ۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ ان تمام بجلی گھروں کو بند کردیا گیا ہے ۔ کیسکو نے ان بجلی گھروں کو ڈیزل کی سپلائی بند کردی ۔ شاید کیسکو کو مالی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔ پہلے تو یہ خبر سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے اخبارات کے ذریعے بتائی اور انہوں نے بعض شہروں کی نشاندہی کی کہ وہاں پر بجلی گھر بند کردئیے گئے ہیں ان میں دریجی بھی شامل ہے ۔ اس خبر پر وزیراعلیٰ نے سخت نوٹس لیا اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا جس میں کیسکو کے سربراہ اور چیف سیکرٹری بھی شریک ہوئے ۔وزیراعلیٰ نے اپنی شدید برہمی کا اظہار کیا اور حکم دیا کہ ان تمام شہروں کو قومی گرڈ سے منسلک کیا جائے جس کے لئے پی سی ون فوری طورپر بنایا جائے تاکہ بلوچستان کے ان تمام علاقوں کو قومی گرڈ سے بجلی ملے اور آئے دن کے بریک ڈاؤن اور بجلی کی دانستہ بند ش سے چھٹکارا ملے ۔ آئے دن مالی بے ضابطگی اور بحران کی وجہ سے کیسکو کے انجینئر بجلی گھر بند کردیتے ہیں یہاں کے مقامی لوگ یہ برملا الزامات لگا رہے ہیں کہ کیسکو کے افسران ڈیزل کی چوری میں ملوث ہیں ۔ادھر وزیراعلیٰ نے اجلاس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقامی لوگ بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کررہے ہیں اور انکا ریکارڈ برا نہیں ہے جیسا کہ کیسکو کے بعض افسران لگاتے ہیں ۔ وفاق کی جانب سے وفاق ‘ وفاقی اداروں اور وفاقی رہنماؤں کو دل چسپی نہیں ہے بلوچستان کے عوام اتنے کمزو ر ہیں کہ وہ اسلام آباد میں کوئی حکومت نہ بنا سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں ۔ اس لےئے حکمران اس بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ بلوچستان کے تمام معاملات اور مسائل کو یکسر نظر انداز کیا جائے ، ان پر توجہ نہ دی جائے۔ ویسے میڈیا نے بلوچستان کو مکمل طورپر بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے ۔ ایسا ہے جیسا کہ یہ پاکستان کا حصہ نہیں یا یہ افریقہ کے دور دراز علاقے میں واقع ہے ورنہ بلوچستان میں بجلی کے مسئلے کا حل فوری طورپر موجود ہے ۔ ایران گزشتہ پندرہ سالوں سے یہ پیش کش کرتا آرہا ہے کہ وہ بلوچستان کو ایک ہزار میگا واٹ سے لے کر دس ہزار میگا واٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے۔ مگر وفاقی حکومت بلوچستان کے لئے نہ بجلی پیدا کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی ایران سے خریدنے کو تیار ہے ۔ وفاق نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ بجلی کے لئے بنیادی ڈھانچہ ہی تعمیر نہ کیا جائے تاکہ ٹرانسمیشن لائن ڈالنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور وفاق بلوچستان کے لئے بجلی ایران سے کیوں خریدے ، چاہے وہ بہت سستی کیوں نہ ہو۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے وفاقی حکومت ،اس کے کارندے اور رہنما صرف زبانی جمع خرچ کررہے ہیں اور اعلانات کررہے ہیں کہ ایران سے مفاہمت کی یاد داشتوں پر درجنوں بار دستخط ہوگئے ۔جن رہنماؤں نے زیادہ شور مچایا، انہی کو تہران روانہ کیا گیا اور مفاہمت کی یادداشتوں پر انہی کے دستخط کروائے گئے ۔پندرہ سالوں سے ایران سستی بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے مگر وفاق بلوچستان کے لیے بجلی کبھی بھی نہیں خریدے گی ۔ چاہے ڈیزل سے چلنے والے بجلی گھر بند ہوجائیں۔ اب تو ایران نے انتہائی سستی بجلی فروخت کرنے کی پیش کش کی ہے پاکستان میں ایک یونٹ بجلی کی تیاری پر بارہ روپے خرچ آتے ہیں اور ایران صرف چھ روپے فی یونٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے مگر اس کو بھی بلوچستان کے لئے نہیں خریدا جائے گا۔ واضح رہے کہ ایران اپنی ضروریات سے زیادہ اور 124,000میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے اور خطے کے آٹھ ممالک کو یہ بجلی ایران فروخت بھی کررہا ہے ۔