|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2015

گزشتہ ادوار میں سیاسی کارکن اور قیدی جیل یا سرکاری تحویل میں محفوظ تصور کیے جاتے تھے ۔ آج کل سیاسی قیدیوں کی جان کو خطرات جیل اور سرکاری تحویل میں زیادہ لاحق ہیں اس کے برعکس جرائم پیشہ افراد خصوصاً دہشت گرد جیل اور سرکاری تحویل میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں ۔ کراچی اور حیدر آباد سے گرفتار سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گرد مکمل امن ‘ چین اور سکون سے ہیں ۔ ان کو سب سے زیادہ سہولیات دی جارہی ہیں ان دہشت گردوں میں بعض کو سزائے موت ہوچکی ہے اور کئی دہائیوں سے ان کے سیاسی آقا ان عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرانے نہیں دیتے ۔ ان کو فراہم سہولیات کو دیکھ کر رشک آتا ہے کہ دہشت گرد اور سزائے موت کے قیدی کتنی آرام سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق دہشت گرد اپنے اپنے نیٹ ورک جیل سے چلاتے ہیں ان کے پاس جدید ترین آلات جیل کے اندر موجود ہیں جن کو استعمال میں لا کر دہشت گردی کی کارروائی کی نگرانی کررہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ہمارے دانشور اور قلمکار دوست کی گاڑی کو ئٹہ سے چوری ہوگئی اور وہ بھی جناح روڈ کوئٹہ سے چرالی گئی ۔ ہمارے دوست نے وزیراعلیٰ سے لے کر ایک ادنیٰ افسر تک یہ سفارش کرانے کی کوشش کی کہ گاڑی کو تلاش کیاجائے ۔ اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے کوئٹہ جیل کا رخ کیا او رمتعلقہ شخص سے رابطہ کیا جو کوئٹہ شہر میں جیل میں رہ کر گاڑیاں چوری کرواتے ہیں ۔ ان کی گاڑی بہت زیادہ پرانی تھی اور انہوں نے سستے داموں نیلام سے ناکارہ گاڑی کی حیثیت سے خریدی اور معمولی سرمایہ کاری کرکے گاڑی کو سڑک پر چلانا شروع کیا ۔یہ پرانی گاڑی چوری کر لی گئی ۔ گاڑی چوری کے سرغنہ نے جیل کے اندر سے پتہ چلایا کہ گاڑی فلاں جگہ ہے اور چور دو لاکھ روپے تاوان طلب کررہا ہے ۔ ہمارے دانشور دوست کے پاس دو لاکھ روپے نہیں تھے اس لئے وہ خاموش ہوگئے اور چور حضرات نے گاڑی اپنے قبضے میں آج تک رکھی ہوئی ہے۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے گروہ پورے بلوچستان میں کام کررہے ہیں اور چوری کی گاڑیوں کی خرید و فروخت جیل کے اندر رہتے ہوئے کررہے ہیں۔ ہمارے محترم جج صاحبان کا یہ مشورہ ہے کہ جیل کو اصلاح گھر بنایا جائے کیونکہ یہ جرائم پیشہ افراد کی تربیت گاہ کے طورپر آج کل کام کررہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پورے معاشرے میں اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن ہے کرپٹ جیل کے اہلکار جیلوں کو اصلاحات کا مرکز نہیں بنا سکتے جب جرائم پیشہ افراد کی منظم طریقے سے سرپرستی جاری ہے۔ سماج کے بہت ہی طاقتور طبقے ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کررہے ہیں اور ہر جرائم پیشہ فرد کو کسی نہ کسی کی سرپرستی حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان اس صورت حال سے پریشان ہیں ۔ پولیس اور لیویز جرائم پیشہ افرادکو رنگے ہاتھوں گرفتارکرتی ہے تو زیادہ با اختیار اور طاقتور لوگ افسران پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ا ن کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ ’’ ہمارے آدمی ہیں ‘‘ بلکہ بعض قتل کے مقدمات میں بھی یہی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف کرپشن ہے ۔ کرپشن کے خاتمے کے بغیر صورت حال میں بہتری کے امکانات نظر نہیں آتے سیاسی حضرات اور حکمران صرف سیاسی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں ۔