|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2015

خدا خدا کرکے شعبہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے بھوت اساتذہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے ۔ موسیٰ خیل سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ڈپٹی سیکرٹری اور ضلعی تعلیمی افسر نے تین اسکولوں کا اچانک معائنہ کیا جہاں پر ایک ہیڈ ماسٹر اور 14دوسرے اساتذہ ڈیوٹی سے غائب پائے گئے ۔ ان سب کے خلاف فوری کارروائی کی گئی ان کو فوری طورپر معطل کردیا گیا ان کی تنخواہیں روک دی گئیں اور ان کو نوٹس دیا گیا کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر چھاپے کے دوران کیوں غیر حاضر تھے ۔ ان اساتذہ میں پانچ خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں جو اپنی سرکاری ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے سیکرٹری ثانوی تعلیم نے اس سلسلے میں اخبارات میں ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں پہلی بار یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض بھوت اساتذہ کی تنخواہیں روک دی گئیں ہیں اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے ۔وزیراعلیٰ اور اس کے رفقاء گزشتہ دو سالوں سے یہ شور مچاتے آرہے تھے اور اساتذہ کو اپیل کررہے تھے کہ وہ بھوت اساتذہ نہ بنیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور ڈیوٹی پر حاضر ہوں ۔ دو سالوں بعد سیکرٹری ثانوی تعلیم نے پہلا ایکشن لے لیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری ثانوی تعلیم پہلے کی طرح مافیا کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے یا دوسرے بھوت اساتذہ کے خلاف بھی کارروائی کریں گے ۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ خصوصاً بھوت اساتذہ کی ایک منظم اور طاقتور تنظیم موجود ہے وہ حرکت میں آئے گی پہلے تو وہ سڑکوں کو بند کردیں گے تاکہ عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ اذیتیں دی جائیں ۔ان کو قانون کے تحت اپنی جماعت منظم کرنے کا اختیار ہے اس کے ذریعے وہ ہڑتال کریں گے۔ پہلے تو سیکرٹری ثانوی تعلیم ان کی خوشنودی حاصل کرتے رہے اور ان کی خدمات بجا لاتے رہے کہ بھوت اور دوسرے اساتذہ ان کے خلاف احتجاج نہ کریں جلسہ نہ کریں جلوس نہ نکالیں اور ان کو اپنے تین سال کی مدت پوری کرنے دیں۔ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر سرکاری ملازمین ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں سرکاری طورپر ملوث ہیں وہ ہڑتال کرتے ہیں اور پوری زندگی کو مفلوج اس لئے بناتے ہیں کہ بغیر ڈیوٹی کے ان کو تنخواہیں ملتی رہیں اور دیگر سہولیات بھی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری ثانوی تعلیم دیگر اسکولوں میں بھی اسی قسم کی کارروائیاں جاری رکھیں گے یا طاقتور ٹیچر مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ اصولی طورپرسیکرٹری ثانوی تعلیم ان انجمنوں پر پہلے پابندی لگائیں جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں جو ڈسپلن رولز کے خلاف ہیں ۔ دوسرے ان اساتذہ کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے ۔ ان کے تمام دفاتر سیل کردئیے جائیں ۔ جو غیر حاضر یا بھوت اساتذہ ہیں انکو ملازمت سے فوری برطرف کیا جائے ۔ ایسی صورت میں عوام اور سیاسی رہنما افسر شاہی کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔ بلکہ صوبائی حکومت اور تمام سیاسی پارٹیاں ایسے اقدامات کی حمایت کریں گے جس کا واحد مقصد تعلیم کا فروغ ہو ۔ تعلیم کا نظام بہتر ہو اور اساتذہ سالانہ 18ارب روپے صرف تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں اس کو جائز بنائیں اور بھوت اساتذہ کو اپنے رینک سے نکال باہر کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری ثانوی تعلیم کس حد تک جاتے ہیں کس حد تک وزیراعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کرواتے ہیں کتنے بھوت اساتذہ کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اوران کو ملازمتوں سے بر طرف کرتے ہیں اب سیکرٹری ثانوی تعلیم کا امتحان ہے وہ ڈٹ جاتے ہیں یا راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔