|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2015

اسلام آباد:  کئی دہائی بعد پہلی بار فاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں گوادر کی ترقی کیلئے بڑے پیمانے پر وسائل مختص کیے گئے ہیں جس میں گوادر ڈیپ سی پورٹ اور اس سے منسلک منصوبے شامل ہیں ، وفاقی بجٹ 2015-16ء میں گوادر میں بین الاقوامی معیار کے ائیر پورٹ کی تعمیر کیلئے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ اسحا ق ڈار نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا ، جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر اسحا ق ڈار نے اعلان کیا کہ گوادر سے منسلک بیشتر اہم قومی و دیگر شاہراہوں کی تعمیر کا اعلان کیا جس میں گوادر کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے رتو ڈیرو ، لاڑکانہ اور دوسری جانب گوادر کو مکران اور وسطی بلوچستان سے ملایا جائے گا ان شاہراہوں کے منصوبوں کو وفاقی حکومت نے پہلی بار اپنے بجٹ میں اہمیت دی ہے ، وفاقی حکومت نے گوادر پورٹ سٹی کی تعمیرو ترقی کیلئے دو ارب روپے کا اعلان کیا ہے جس کی تمام ذمہ داری گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے ) کو سونپی گئی ہے اس کے علاوہ ایک خطیر رقم شہری اور میونسپل سہولیات کی بہتری کیلئے استعمال میں لائی جائے گی ، گوادر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کیلئے تین ارب روپے کی مالیت کے منصوبے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت گوادر کو پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا ، اس سے قبل آکڑہ کور ڈیم پندرہ سال سے کم عرصے میں تباہ ہوگیا جس کی مدت زندگی پچاس سال بتائی گئی تھی جس کے باعث گوادر میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا ، ان منصوبوں کے علاوہ گوادر پورٹ کی بنیادی سروسز کو بہتر بنانے کیلئے ایک بڑی رقم مختص کی گئی ہے جس کے تحت اندرون سمند ڈریجنگ اور بحرنوردی چینلز کو گوادر میں موثر اور مکران کوسٹل علاقوں تک پھیلا جائے گا جس سے گوادر پورٹ کے بنیادی کارکردگی مزید بہتر ہوگی، وفاقی وزیر خزانہ نے اورماڑہ کے قریب باسول ندی میں بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ، وفاقی وزیر نے پانی کے ذخائر بڑھانے کیلئے دیگر منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے جس کے تحت پورے مکران کوسٹ جیوانی سے اورماڑہ تک پانی کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا ، وفاقی بجٹ میں بلوچستان میں پانی کی فراہمی کے دیگر پروجیکٹ کیلئے بھی وسائل مختص کیے گئے ہیں جس میں شادی کور ڈیم اور دیگر چھوٹے ڈیموں کی مکمل تعمیرات شامل ہیں ان ڈیموں کی تعمیر وسطی بلوچستان اور جنوب مغربی علاقوں میں بھی عمل میں لائی جائے گی اس کے علاوہ زیر تعمیر ڈیموں کی تکمیل کیلئے بھی وسائل مختص کیے گئے ہے ، وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ بلوچستان میں بڑے اور درمیانے درجے کے بہت سارے ڈیم بنائے جائیں گے جس سے پانی کے ذخائر میں اضافہ اور بحران پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا ، وفاقی حکومت کی جانب سے شمسی توانائی سے چلنے والے پاور ٹیوب ویل سے بلوچستان کے ذرعی شعبہ زیادہ فائدہ اٹھا سکے گئے ، وفاقی حکومت کی جانب سے30ہزار ٹیوب ویل مالکان کو بغیر سود کے قرضے کے طور پر فراہم کیے جائیں گے ، بجٹ تقریر کے مطابق مالک کو محض ایک لاکھ روپے ادا کرنے ہونگے جبکہ اسکے علاوہ دس لاکھ روپے بقایا جات بغیر کسی سود کے ادا کرنے ہونگے جبکہ مارک اپ وفاقی حکومت کی جانب سے ادا کیا جائے گا ، واضح رہے کہ شمسی تونائی سے چلے والی ایک ٹیوب ویل کی قیمت گیارہ لاکھ روپے ہے ، وفاقی وزیر کے مطابق شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل سے زمیندار بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھا سکیں گے اور بجلی کے بل کی خطیر رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی ، رواں مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان کے ریلوے سیکٹر کو اہمیت نہیں دی گئی ہے جبکہ تمام ترقیاتی منصوبے وسطی پاکستان، سندھ یا پنجاب تک محدود کیے گئے ہیں ، ریلوے کی بہتر کیلئے 78ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، یہ خطیر رقم ریلوے ٹریک کی بہتری ، ریلوے پل، ریلوے اسٹیشن کی تعمیر اور پنجاب میں دوطرف ریلوے ٹریک بنانے پر خرچ کی جائے گی ، حکومت کی جانب سے ریل انجن اور 1500ریلوے بوگیاں خریدنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے ، اسکے علاوہ 159نئے انجن اور 100پرانے ریل انجن کو مرمت کیا جائے گا ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 12ایکڑ زمین رکھنے والے زمینداروں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جائیں گے ، وفاقی حکومت کے بجٹ کا کل حجم 4313ارب روپے ہے جبکہ دفاع کیلئے 780ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، بجٹ سے ایک بہت بڑی رقم قرض سروسز کی مد میں ادا کی جائے گی جس تخمینہ تقریبا 1.7ٹرلین روپے ہے ، ایف بی آر کو 3100ارب روپے ریونیو جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑا جائے گا جس سے ریونیو کا ہدف 270ارب روپے سے بڑا کر 400ارب تک کیا جائے گا ، کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کیلئے 16ارب روپے مختص کیے گئے ہیں یہ منصوبے وسطی کراچی سے سرجانی ٹاون تک ہوگا یہ منصوبہ آئندہ سال دسمبر تک مکمل کیا جائے گا ، اسی نوعیت کے اسکیمات سیالکوٹ اور دیگر شہروں کیلئے بنائے گئے ہیں جس سے اندورن شہرسفر بہتر بنانے کے منصوبے شامل ہیں ، وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں بجلی اور پانی کے سیکٹرز کیلئے بڑے منصوبے ترتیب دیئے گئے ہیں ، کراچی لاہور موٹر وے منصوبے کے تحت مختلف سیکشن تعمیر کیے جائیں گے جس میں کراچی حیدرآباد سیکشن کو زیادہ اہمیت دی جائے گی ، وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ کو بتایا شمسی تونائی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا ، اس سے قبل ان شعبوں میں بڑے پیمانے پر ٹیکس لگائے گئے تھے جس میں ابتدائی طور پر شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر زیادہ ٹیکسز تھے جس کے متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر انتہاء منفی اثرات پڑے ہیں اور ملک میں بجلی کا بحران سنگین ہوتا گیا ہے اور اس کے حل میں بھی مشکلات پیش آ رہی تھی ۔