|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2015

پاکستان نے کہا ہے کہ اگر بھارت کے ساتھ دوستی نہیں ہو سکتی تب بھی پاکستان اس سے اچھے تعلقات کی خواہش رکھتا ہے تاہم دو طرفہ مذاکرات صرف بھارت کے من پسند امور پر نہیں کیے جائیں گے۔یہ بات پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں سارک ممالک کے تعلیمی امور سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب سے قبل میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہی۔انھوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف حالیہ عرصے میں دئیے جانے والے دھمکی آمیز بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نوٹس میں لایا جائے گا۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل چاہتا ہے، مشکلات کا حل مذاکرات میں ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم مذاکرات بھارت کی شرائط پر نہیں کریں گے بلکہ ان تمام ایشوز پر کریں گے جس میں دونوں ممالک کے مشترکہ ایجنڈے شامل ہوں۔انھوں نے کہا کہ جب تک کشمیر اور پانی کامسئلہ مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہو گا تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بھارت اور کشمیر کے انتخابات میں ووٹ لینے کے لیے پاکستان مخالف بیان بازی اور انداز اختیار کیا گیا۔سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر واقعی بھارتی بیانات کے پیچھے ویسی ہی سوچ بھی موجود ہے تو پھر یہ کافی تشویشناک بات ہے۔ان کا مطالبہ تھا کہ بین الاقوامی برادری کو موجودہ صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ سکیورٹی خدشات پیدا نہ ہوں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے بعد صرف ایک ملاقات وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ہوئی تھی ملاقات کے دوران بہت سی امیدیں وابستہ کی گئیں تھیں کہ پاک بھارت کشیدگی جو عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے اس میں کمی لانے کیلئے دونوں ممالک کے وزراء مختلف ایشوز پر بات کرینگے جس کے باعث پاک بھارت کشیدگی میں کمی آسکے گی مگر اب تک کی صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے متعلق نریندر مودی کے خیالات سے پاکستان کے عوام کی دل آزاری ہوئی۔ دوسری جانب اس بیان پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔سیاسی مبصرین اس بات پر اب زور دے رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی تو خطہ عدم توازن کا شکار ہوگا جس کا متحمل شاید پوری دنیا نہیں ہوسکتا کیونکہ آج بھی یہ خطہ ماضی کی جنگوں سے شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے اور پاکستان میں موجود ہ حالات کی خرابی کے پیچھے وفاقی وزیر دفاع سمیت سیاسی و عسکری قیادت بیرونی مداخلت کو قرار دے رہے ہیں خاص کر بھارت کا نام صف اول میں ہے اور اس کے متعلق شواہد کی بھی بات کی گئی ہے۔ بہرحال دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کیلئے عالمی برادری کو بہترین کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں اس وقت فوج پہلے سے ہی شدت پسندوں کے خلاف ضرب عضب آپریشن میں مصروف ہے اور آج اس آپریشن کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے یہ آپریشن پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا مشترکہ فیصلہ تھا کیونکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے حملے کیے گئے جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ سیاسی مبصرین کشیدگی کو دور کرنے کیلئے دونوں ممالک کے چند ایجنڈوں پر رضا مندی کو ہی قربت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ماضی بعید میں میاں محمد نواز شریف، پرویز مشرف کے دور میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے تھے مگر معاملات آگے نہیں بڑھے لیکن بات چیت میں پیشرفت اس وقت ہوگی جب بھارتی وزیراعظم کی جانب سے اس طرح کے بیانات سمیت پاکستان میں مداخلت کے حوالے سے اپنا واضح موقف بیان کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح کے رویوں سے فاصلے مزید بڑھیں گے جو کہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف امریکہ ،نیٹو بلکہ پورا خطہ متاثر ہوکر رہ جائے گا۔ ان تمام عوامل کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان پیشگی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے مگر اسے کمزوری سے نتھی نہ کیا جائے کیونکہ سیاسی و عسکری قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں مگر جنگ مسائل کو مزید بڑھائے گی جس سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا جبکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات سے ہی امن اور خوشحالی اس خطے میں آئے گی۔