|

وقتِ اشاعت :   July 1 – 2015

کوئٹہ: 18 ویں آئینی ترمیم قوم پرست وطن دوست سیاسی اکابرین کی جدوجہد کا ثمر ہے پاکستان سندھ اور بلوچستان کے وسائل سے چل رہا ہے 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو ملنے والے اختیارات اور حقوق پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکانے والی قوتیں ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی راہ پر چل رہی ہیں ان خیالات کااظہار سی پی این کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جبار خٹک اے پی این ایس بلوچستان کے صدر انور ساجدی حکومت بلوچستان کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر اسحاق بلوچ صدر پریس کلب کوئٹہ شہزادہ ذوالفقار اور پی ایف یو جے کے سینئر نائب صدر سلیم شاہد نے سی پی این ای اور یو این ڈی پی کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب میں18 ویں ترمیم کے تناظر میں دو روزہ منعقدہ میڈیا ٹریننگ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیاسی پی این ای کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹرجبار خٹک نے کہاکہ ماضی میں بلوچستان کوتمام امورمیں نظراندازکیاجاتارہاہے مگراب 18ویں ترمیم کے ثمرات سامنے آناشروع ہوگئے 18ویں ترمیم صوبائی خودمختاری کے حوالے سے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے 1973کی آئین کی اصل شکر18ویں ترمیم کے ذریعے بحال ہوچکی ہے آمریت کاراستہ بند ہوچکاہے صوبوں کے حقوق کا80فیصدمل چکاہے صوبائی حکومتوں کوکپیسٹی بلڈنگ کی کمی کودورکرکے 18ویں ترمیم سے مستفیدہونے کی کوشش کرنی چاہئے انور ساجدی نے کہا کہ کسی زمانے میں صوبائی خود مختاری کا نام لینا بھی غداری سمجھا جاتا تھا مگر18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بے شمار اختیارات ملے ہیں مگر ان اختیارات اور حقوق کو حقیقی معانی میں عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے1973 کی آئین کی بجائے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے وفاق نے18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے محکموں کے ملازمین کو صوبوں کے حوالے کردیئے ہیں مگر فنڈز منتقل نہیں کئے جارہے ہیں صوبائی حکومتوں کو اپنی کپیسٹی بھی بڑھانی چاہیے ڈاکٹر اسحاق نے کہاکہ ہمارے اکابرین نے کئی سالوں قبل جو پیش گویاں کی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ وہ درست ثابت ہوئی ہیں صوبوں اور عوام کو ان کے وسائل پر اختیار نہ ملنے کی وجہ سے1971 میں بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوگیا شیخ مجیب کے6نقات کو کل غداری کہا گیا مگر ان 6 نقات سے بڑھ کر18 ویں ترمیم میں اختیارات صوبوں کو مل چکے ہیں دنیا کے28 ممالک میں صوبوں کو ملنے والے اختیارات سے زیادہ اختیارات پاکستان میں صوبوں کو دیئے گئے ہیں آئین پاکستان کی120 شقوں کو تبدیل اور69 میں ترمیم کی گئی ہے اور اسمبلیوں کو بااختیار بنایا گیا ہے18 ویں ترمیم نے آمریت کا راستہ روکا ہے ترمیم کے بعد آئل اینڈ گیس کی پیداوار پر صوبے کا حق50 فیصد تسلیم کیا گیا ہے اب وفاق صوبوں کی رضا مندی کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کرسکتا آئل اینڈ گیس میں برابر شیئر دینے سے بلوچستان کو90 ارب مزید ملیں گے18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی وزارت تعلیم اور صحت کی ضرورت نہیں رہی ترمیم پر مکمل طورپر عملدرآمد سے وفاق کا بوجھ کم اور پاکستان مضبوط ہوگا میڈیا کو واچ ڈاگ کا کردا ادا کرنا چاہیے بلوچستان حکومت قانون سازی کا عمل شروع کررکھا ہے کپیسٹی بلڈنگ بھی کی جارہی ہے ریونیو اتھارٹی بنائی گئی ہے ہیلتھ پالیسی بنائی جارہی ہے یوتھ اور وومن پالیسی پائپ لائن میں ہےHEC کو صوبائی سطح پر بنانے کے لئے ہوم ورک کیا جارہا ہے 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد کرکے بلوچستان کے تمام مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ شہزادہ ذوالفقار صدر پریس کلب نے کہا کہ بلوچستان میں24 صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں صوبے میں صحافیوں کی تربیت کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے سی پی این ای کی قیادت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے صحافیوں کی تربیت کے عمل میں عملی اقدامات اٹھائے ہیں صوبائی خود مختاری بلوچستان کا ہمیشہ سے درینہ مطالبہ رہا ہے قوم پرستوں نے ملک میں تمام انتخابات میں اسی لئے حصہ لیا کہ ان کی سیاسی جدوجہد سے صوبے کو خود مختاری مل جائے1990 تک صوبائی خود مختاری کو غداری سمجھا جاتا تھا ملک کو توڑنے کی سازشیں سمجھا جاتا تھا1990 تک مضبوط مرکز کو مضبوط پاکستان سمجھا جاتا تھا18 ویں ترمیم کی وجہ سے وزیراعظم کو صدر کے اختیارات ملے ہیں وزیراعلیٰ کو گورنر کے اختیارات ملے ہیں اسمبلیوں کو بااختیار بنایا گیا ہے ملک میں اقتدار کے غیر آئینی طریقے کو روکا گیا ہے گوادر کی ترقی کیلئے صوبے کی سیاسی پارٹیوں کو مل کر لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا کہی ایسا نہ ہو کہ کراچی کی بلوچ اور سندھی آبادی جیسی حالت بلوچوں کی نہ ہو صوبوں کو اپنی کپیسٹی کو بڑھانا ہوگا صوبائی حکومت کو وفاق سے ملنے والے اختیارات کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہوئے صوبائی سطح کے اختیارات کو بلدیاتی حکومتوں تک منتقل کرنا ہوگا سلیم شاہد نے کہاکہ صوبائی حکومت کو ہیومن ریسورسز کو بڑھانا چاہیے محکموں میں اہل لوگوں کو تعینات کیا جائے بجٹ بناتے وقت عوام کو انوالو کیا جائے صوبے کی کوئی سیاسی پارٹی ترقی کی مخالف نہیں ہے صرف تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر روزنامہ مشرق کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سید کامران ممتاز اور دیگر ایڈیٹرز بھی موجود تھے میڈیا ایکسپرٹ ضیگم نے پالیسی سازی اور پائیدار ترقی کے حوالے سے صحافیوں کو تربیت ورکشاپ کا دوسرا سیشن آج ہوگا ۔