|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2015

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کو انتہا پسندی ، دہشت گردی کے خلاف ملکر جنگ لڑنے کی ضرورت ہے، ایرانی معیشت کی بہتری کے مثبت ثمرات بلوچستان پر بھی پڑیں گے، یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایران کے قونصل جنرل سید حسن یحییٰ وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر ایرانی سفیر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ایرانی گورنر سیستان بلوچستان کی جانب سے ایران کے دورے کی باقاعدہ سرکاری دعوت دی۔ ملاقات میں دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور ، پاک ایران تجارت، ایران کی بلوچستان کے لیے مزید 30میگا واٹ بجلی کی منظوری، سرحدی تجارت ، امن و امان سمیت بلوچستان اور ایران کے درمیان مفاہمتی یاداشتوں پر عملدرآمد کی رفتار کا بھی تفصیلی جائرہ لیا گیا، ایرانی قونصل جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سیستان بلوچستان کے گورنر کی جانب سے انہیں ایران کے دورہ کی دعوت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور ایران کے عوام کے درمیان برادرانہ تاریخی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں اور وہ بہت جلد ایران کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایران کی ترقی و خوشحالی اور معیشت کی بہتری کے ثمرات بلوچستان کے عوام پر پڑتے ہیں اور موجودہ ایرانی قیادت کے امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مفاہمتی عمل کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہونگے اور مستقبل میں ایران کاروبار کے لحاظ سے ہمارے خطہ کا حب ہوگا اور بالخصوص بلوچستان کے ایران کے ساتھ منسلک اضلاع بھی اس ترقی سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کے معاملے کی وہ خود نگرانی کریں گے اور جن دوطرفہ کمیٹیوں کے اجلاس زیر التواء ہیں ان پر بھی فوری طور پر عمل ہوگا۔بلوچستان سے ملنے والے ایران کے سرحدی علاقوں سے اگر باقاعدہ طور پر دونوں ممالک کی جانب سے تجارت کا آغاز کیاجائے تو یقینااس کے ثمرات سے بلوچستان بھی مستفید ہوگا۔ اب تک سرحدی علاقوں میں بسنے والے بیشتر افراد کا آمدنی کاذریعہ اسمگلنگ پر ہے جس میں پیٹرول وڈیزل شامل ہیں جو ان سرحدی علاقوں سے آتے ہیں جس کے باعث خطرناک واقعات رونما ہوچکے ہیں جس کی مثال گڈانی موڑ کا سانحہ ہے جس میں 30 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق ضلع مکران سے تھا جبکہ ضلع لسبیلہ کے ایک ہی خاندان کے 12 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے واقعہ پیٹرول وڈیزل سے لدھے مسافرگاڑیوں کے باعث پیش آیا جس سے 30 سے زائد مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ اگر اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تو آگے چل کر اس طرح کے دلخراش واقعات رو نما نہیں ہونگے اگرچہ اس سانحہ کے بعد اسمگلنگ میں کسی حد تک کمی آئی ہے مگر اب بھی عام لوگ مجبور ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور ذرائع معاش کے نہیں ہیں جس کے باعث مجبوری کے تحت وہ یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے سب سے پہلے مکران میں بجلی کی ترسیل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر معاہدہ کیاجائے تو مکران میں صنعتیں لگ جائیں گی اور ہزاروں افراد اس سے مستفید ہونگے اور مقامی لوگوں کیلئے نئے روزگار کے راستے کھلیں گے جس سے کاروباری شخصیات اور عوام بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ جہاں انتہاء پسندی کے خلاف جنگ کامعاملہ ہے جس سے پورا خطہ متاثر ہوکر رہ گیا ہے اس کے خلاف متحد ہونا یقیناًوقت اور حالات کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان،ایران اور افغانستان پہلے سے ہی اس سے شدید متاثر ہیں اگر اس سنجیدہ مسئلے پر باہمی اتفاق رائے سے کام کیاجائے تو تینوں ممالک میں دیرپا امن قائم ہوگا۔ پاکستان اور ایران کی جانب سے جو اجلاس التواء کے شکار ہیں ان پر جلد عمل کرکے دونوں ممالک اپنے معاشی وسیاسی مفادات کا ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ اب تک پاک ایران تجارتی معاہدے اتنے نہیں ہوئے جتنے اعلانات سامنے آئے ہیں اگر سنجیدگی کے ساتھ دونوں ممالک اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے جو اعلانات ماضی میں کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد کیاجائے تو صرف صوبہ بلوچستان نہیں بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کا دورہ ایران بھی ایک خوش آئند عمل ہوگا جس سے دونوں ممالک کے نمائندگان بیٹھ کر اپنی ترقی کیلئے نئے راستے ہموار کرینگے اگر یہ روابط تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو یقیناًخطے میں امن کے ساتھ معاشی انقلاب بھی برپا ہوگا جو دونوں ممالک کے مفادمیں ہے اور اس خطے میں ایک نئی صورتحال جنم لے گی جو دونوں ممالک کے عوا م کیلئے نیک شگون ثابت ہوگا۔