|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2015

موجودہ حکومت نے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جوکہ کوئٹہ شہر کی خوبصورتی ،سیوریج لائن اور پانی کے لئے ہے لیکن فنڈ تو خرچ ہو رہے ہیں درالحکومت میں خوبصورتی ترقی ،پانی وسیوریج نام کی چیز ہی وجود ہیں رکھتی ۔مختلف موقعوں پر دعویٰ کے برعکس ان دو سالوں میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے اور صوبائی حکومت کوئٹہ کو ترقی یافتہ شہر بنانے میں ناکام نظرآرہی ہے ۔ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں پانی کی قلت اور نایابی کا مسئلہ مزید گھمبیر اور شدت اختیار کرتا جا رہاہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں کے رہائشیوں کے لئے پانی کا حصول انتہائی مشکل بنتا جارہاہے۔ ایک طرف جہاں زیر زمین پانی کی سطح گر رہی ہے وہ پانی جو چند برس پہلے 20/25فٹ پر مل جاتا تھا اب80/90فٹ تک بھی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے ۔ جبکہ پانی کی سطح غیر معمولی حد تک نیچے چلی گئی ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وادی کوئٹہ میں زیر زمین پانی کے ذخائر ختم ہوگئے ہیں ۔ کاریزیں اور چشمے پہلے سے دم تو ڑ چکے ہیں اگر پانی دستیاب ہے توو ہ ٹینکر مافیا کے پاس ہے اور واٹر ٹینکر اس وقت غیر معمولی حد تک نفع بخش کاروبار بن گیا ہے اس مافیانے جو ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں یا بورنگ کا ذریعہ استعمال کر رہے ہیں ان کی غیر قانونی تعداد میں سینکڑوں کے حسا ب سے اضافہ ہورہاہے ویسے تو شہر کے ہر علاقے میں پانی نایاب ہے مگر اس کے مضافات تو پانی کی بوند بوند کر ترستے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹرعبدا لمالک بلوچ اور میئر کوئٹہ سٹی ڈاکٹر کلیم ا للہ خان اور ڈپٹی میئر یونس بلوچ نے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا ا س وقت بطور خاص منوجان ، فقیر محمد، سریاب ، بروری روڈ ، ریلوے ہاوسنگ سوسائٹی ، اے ون سٹی کوئٹہ کینٹ کے بیشتر علاقے ، پرانا پشین بس اڈہ کے ارد گرد کے علاقے گوالمنڈی ، پشتون آباد، نیچار ی روڈ، کچی بیگ، مری آباد،سٹلائیٹ ٹاؤن ، کلی بارات ، کلی جمعہ ، جوائنٹ روڈ، وغیرہ کے علاقے یوں لگتا ہے کہ پانی سے خالی ہوگئے چند برس جوواٹر ٹینکر دو یا 500-800تک میں ملتا تھا اب پندرہ سے دو ہزار تک بھی منت سماجت سے ملتاہے ۔مندرجہ بالا علاقوں میں پچھلے کئی مہینوں سے ٹیوب ویلوں کی حالت خستہ ہے اور اکثر خراب رہتے ہیں جبکہ اس علاقے میں زیادہ تر مکین ہر مہینے بل جمع کرتے ہیں لیکن پانی ان کو میسر بھی نہیں۔ ہوٹلوں ، حماموں اور اہل ثروت لوگوں نے اپنے باغ باغیچوں کے لئے مہنگے واٹر خرید نے شروع کئے اور غریب عوام پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کی خواتین اور بچے سرکاری ٹیوب ویلوں پر گھنٹوں پانی آنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں لوڈ شیڈنگ کے دورانیے نے اس پر مزید قیامت بر پا کر رکھی ہے جب کہیں پانی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو ا س وقت بجلی غائب ہوتی ہے۔ اس بارے میں واسا حکام نے بر ملا طورپر پانی کی قلت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاریز یں اور ٹیوب ویل سوکھ گئے ہیں جس کی وجہ سے پانی کی قلت بڑھ گئی ہے اگر پانی کے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اتحادی صوبائی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پانی کی فراہمی کیلئے بندوبست نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب کوئٹہ شہر سے عوام کی نقل مکانی شروع ہوجائے گی حکومت کی زنبیل میں پانی کی بارے میں متعدد منصوبے ہیں تو فنڈکی فراہمی کا مسئلہ ہے جنرل مشرف کے زمانے میں کوئٹہ گریٹر واٹر پلان کے لئے 12ارب روپے دئیے گئے وہ پوری رقم معلوم نہیں کہاں اور کس مقصد کے لئے استعمال ہوئی ،اس رقم سے تو پانی کے چند قطرے بھی ممکن نہیں بنائے جاسکے۔موجودہ حکومت کے تعاون کے برعکس پانی کی فراہمی میں حالات مزید سے مزید خراب ہوچکے ہیں جبکہ واسا کوئٹہ کو پانی کی فراہمی میں ناکام ثابت ہو چکا ہے کوئٹہ کے شہریوں کو ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔بلدیاتی سیٹ اپ پورا ہونے کے بعد ایک اُمید کی کرن نظر آئی تھی لیکن وہ بھی موجودہ صورتحال میں ناکام نظر آرہی ہے۔کوئٹہ کے شہری موجودہ صورتحال میں حیران وپریشان ہیں کہ شہر میں پانی کا کوئی نظام ہی نہیں، سیوریج کا نظام نکارہ ہونے کی وجہ سے آئے دن شہریوں میں مختلف قسم کی بیماریاں(گلہ ، نزلہ ،سینہ ،دمہ ہائپوٹینشن ، ) عام ہیں۔ نئے پرائیوٹ ہاؤسنگ سکیموں میں سیوریج نا ہونے کی وجہ سے کوئٹہ شہر کے مختلف گلی کوچوں کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے اورہر روڈ، ہر گلی میں سیلاب کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے جس کی وجہ سے مچھر پیدا ہوتے ہیں اور ملیریا کی بیماری ان دنوں میں عام ہو جاتی ہے ۔ موجودہ صوبائی حکومت اور بلدیاتی میونسپل کارپوریشن کوئٹہ نے شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر مشکلات میں اضافہ کردیا ہے اور اپنے الیکشن سے پہلے کئے ہوئے وعدے جوکہ دو سال پورے ہونے کو آرہے ہیں ان میں سے کوئی وعدہ پورا ہونے کو نہیں آرہا، کوئٹہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بڑھتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔کوئٹہ کو صوبائی دارلحکومت ہونے کے باوجود مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کے وفاقی اور صوبائی دارلحکومتوں کی تصویر سامنے ہے جو آئے دن ہم اخبارات ،میڈیا اور سوشل میڈیا میں دیکھتے ہیں ۔ہمیں اُمید ہے کہ کوئٹہ شہر کے یہ مسائل جلد سے جلد حل کئے جائیں گے اور شہر کو ایک بار پھر مثالی خوبصورت دارلحکومت بنایا جائے گا۔کوئٹہ کے شہری جلد سے جلد ان مسائلوں سے نجات پائیں گے اگر ان پر صحیح معنوں پر کام کیا جائے ،ان دعوؤں کے برعکس جو اخبارات اور میڈیا چینلز تک محدود ہیں۔