|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2015

آئے دن سیاسی رہنماؤں اور حکومتی لیڈروں کی طرف سے یہ بیان آتا ہے کہ نجی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا بلوچستان میں تحفظ کیا جائے گا۔ پہلے تو ان لوگوں کی نشاندہی کی جائے جو بلوچستان میں اور موجودہ حالات میں سرمایہ کاری میں دل چسپی رکھتے ہیں ۔ حکومتی لیڈر کسی ایک ملک یا کمپنی کا نام نہیں بتا سکتے کہ وہ اس صوبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ ریکوڈک کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کے بعد کوئی بین الاقوامی کمپنی یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ بلوچستان آ کر یہاں صنعتیں قائم کرے گی۔ موجودہ سیکورٹی کی صورت حال اور وفاقی حکومت کی بلوچستان سے غیر ہمدردانہ سلوک کے بعد یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ کوئی بیرونی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ غیر ملکیوں کا بلوچستان میں بغیر اجازت داخلہ منع ہے ۔ کوئی غیر ملکی بغیر سرکاری اجازت کے بلوچستان نہیں آسکتا ۔ اکثر پاکستانی سفارت خانے لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں کئی سال پہلے ہمارے ایک اخبار نویس مہمان کو پاکستانی سفارت کاروں نے یہی بتایا ۔ انہوں نے ہم سے رابطہ کیا تو ہم نے مہمان صحافی کواطلاع دی کہ وہ گوادر نہیں جا سکتے ۔ وہ بضد تھے کہ سفارت کاروں نے ان سے کہا ہے کہ وہ ضرور جائیں گے۔ بیرونی صحافی کوگوادر ائر پورٹ پر اترتے ہی گرفتار کر لیا گیا اور اس کو اپنے ہی ہوٹل میں نظر بند کردیا گیا، پھر دوسرے دن ان کو واپس جہاز میں بٹھاکر کراچی روانہ کیا گیا ۔ حالیہ سالوں میں گوادر پورٹ کا چرچا زیادہ تھا ایک غیر ملکی سرمایہ کار گوادر پہنچا کہ وہ معاشی صورت حال کا جائزہ لے ۔ ان کو بھی ائر پورٹ پر گرفتار کر لیا گیا ۔ مقامی افسروں نے شور مچایا کہ یہ سرمایہ کاری کرنے گوادر آیا ہے مگر کسی نے نہ سنی اور ان کو بھی دوسرے جہاز میں کراچی روانہ کردیا گیا ۔ جب بیرونی ملک سے سرمایہ کاروں پر پابندی ہے تو صوبے میں سرمایہ کاری کہاں سے ہوگی۔ بلوچستان کے معاشی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ سرکاری شعبہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کرے ۔ سب سے پہلے 54ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ کو اراکین اسمبلی سے لے کر ان کو معاشی ترقی کے ان منصوبوں پر خرچ کیاجائے جس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہوں ۔ پیداوار میں اضافہ ہوتا ہو اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ کوئی یہ بتائے کہ ہر ایم پی اے کو 25کروڑ روپے دیا جاتا ہے گزشتہ تیس سالوں میں اس فنڈز سے کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟ صوبائی پیداوار اور حکومت کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ۔ان سب کا جواب زیرو ہے ۔ تیس سالوں سے قوم کی دولت افراد کے جیبوں میں چلی گئی ۔ یہاں تک اراکین صوبائی اسمبلی نے بعض اوقات اپنے اسکیم ٹھیکیداروں کے ہاتھ فروخت کردئیے ۔ اراکین اسمبلی صرف قانون سازی کریں ۔ کابینہ میں بیٹھ کر اہم انتظامی اور دوسرے فیصلے کریں وہ معیشت کو صاف رکھیں اور اس کو ماہرین معاشیات کے حوالے کریں تاکہ معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو ۔ صوبے میں سے بے روزگاری ختم ہو ۔ غربت کم سے کم ہو اور اس کا جلد خاتمہ کیا جا سکے اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو ۔ فی الوقت بلوچستان کی حکومت وفاق کا محتاج ہے اور اس ہی کی خیرات پر آس لگائے ہوئے ہے کہ وفاق سے فنڈ ز آئیں تو اس کو عوام کے لئے نہیں بلکہ 65اراکین اسمبلی میں تقسیم کیاجائے ۔ جب یہ توقع ہوگئی تھی کہ نئے این ایف سی ایوار ڈمیں زیادہ فنڈز ملیں گے۔ راقم کی موجودگی میں سابق وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے سابق وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ اس اضافی رقم کو اراکین اسمبلی کو دیاجائے اور آخر کار وہی ہوا ۔ بلوچستان کی ترقی کے لئے پاکستان کا معاشی ماڈل اختیار کیاجائے حکومت فیکٹریاں ‘ کارخانے بنائے ۔ کچھ عرصہ خود چلائے اور بعدمیں نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کیاجائے اس سے ترقی کی رفتار زیادہ تیز ہوگی ۔