|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2015

کراچی: سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس(ر)سعیدالزماں صدیقی نے کہاہے کہ ماضی میں لوگ عدالتوں اور تھانوں میں اپنے معاملات کوحل کرانے کوترجیح دیتے تھے،عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات اور کیسوں کے فیصلوں میں تاخیرکی وجہ سے عدالتوں پرعوام کااعتمادختم ہوتاگیا۔اب لوگ اپنے لڑائی جھگڑے،تنازعات اور دیگرعدالتی معاملات تھانے اورعدالتوں کے باہرمصالحت سے حل کرناچاہتے ہیں۔میڈی ایشن (مصالحت)کے ذریعے معاملات کوحل کاباقاعدہ آغازمغربی ممالک سے شروع ہوا،جہاں عدالتوں میںآلٹرنیٹوڈسپیوٹ ریزولوشن(اے ڈی آر)کانفاذہوا۔جس کی وجہ سے متعددمقدمات کوعدالتوں میں سماعت کے بجائے بات چیت اور مصالحت سے حل کرنے کامنفردطریقہ کارمتعارف کروایاگیا۔پاکستان اور خصوصا کراچی کے کشیدہ علاقوں میں لوگ اپنے تنازعات اورلڑائی جھگڑے عدالتوں کے چکرلگائے بغیرمصالحت سے حل کرنے کوترجیح دے رہے ہیں۔جومثبت پیش رفت ہے۔سسٹین ایبل پیس اینڈڈیولپمنٹ(سپاڈو)اور نیشنل سینٹرفارڈسپیوٹ ریزولوشن(این سی ڈی آر)کی جانب سے کراچی کے رورل ایریازمیں لوگوں کے مسائل اور تنازعات مصالحت کے ذریعے حل کرانے کیلئے ورکشاپ کاانعقادکیاگیا۔جس میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں ایم کیوایم کے رؤف احمدصدیقی،تحریک انصاف کے ڈاکٹرعارف علوی،جے یوآئی کراچی کے امیرقاری عثمان،اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری یونس بونیری،کراچی کے پسماندہ علاقوں ہجرت کالونی،شرافی گوٹھ،گلزارکالونی،پاک جمہوریہ کالونی،بلال کالونی سمیت دیگرعلاقوں سے سماجی نمائندوں،پولیس افسران سمیت دیگرافرادنے شرکت کی۔اس موقع پرجسٹس(ر)سعیدالزماں صدیقی کاکہناتھاکہ امریکا،آسٹریلیا،کینیڈا،انگلینڈاور یورپی ممالک میں میڈی ایشن عدالتی نظام کاحصہ ہے۔مغربی ممالک میں تنازعات،جھگڑوں کوکورٹس میں میڈی ایشن کے ذریعے حل کیاجاتاہے۔لیکن بدقسمتی پاکستان میں ایساکوئی نظام موجودنہیں۔ان کاکہناتھاکہ میڈی ایشن پروجیکٹ ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے۔کراچی میں2007میں کے سی ڈی آرنے آلٹرنیٹوڈسپیوٹ ریزولوشن پروجیکٹ شروع کیا۔جس کیلئے ورلڈبینک نے فنڈزفراہم کئے۔دوسال کے بعدورلڈبینک کی جانب سے فنڈزکی فراہمی بندکردی گئی،جس کے بعدیہ پروجیکٹ بندہوگیا۔سعیدالزماں صدیقی کاکہناتھاکہ سسٹین ایبل پیس اینڈڈیولپمنٹ اورسندھ ہائیکورٹ کے درمیان ایم اویوپردستخط ہوئے ہیں۔ جس کے بعداب معمولی مقدمات اور تنازعات کوعدالتوں کے بجائے معاملات افہام وتفہیم اور مصالحت سے حل کرنے کیلئے لوگوں میں شعوروآگہی پیداکی جائے گی۔سندھ ہائیکورٹ کے ساتھ مل کراس پرکام کررہے ہیں۔سابق چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی کاکہناتھاکہ سندھ میں میڈی ایشن بل 2007سے اسمبلی میں منظوری کیلئے پڑاہے۔جسے ابھی تک منظورنہیں کیاجاسکاہے۔میڈی ایشن عدالتی نظام کاحصہ ہے۔میڈی ایشن کے فروغ سے لوگوں کوجلدانصاف مل سکے گا۔عدالتوں میں زیرالتواء معمولی مقدمات بھی میڈی ایشن کے ذریعے ختم ہوسکیں گے۔ایم کیوایم رہنمارؤف صدیقی نے کہاکہ پاکستانی معاشرہ جاگیرداروں،وڈیروں اور قبائلی نظام کامعاشرہ ہے۔ان کاکہناتھاکہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں میڈی ایشن بل2007کی منظوری کیلئے آوازبلندکرے گی۔انہوں نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ میڈی ایشن بل کواپوزیشن کی جانب سے شدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے دونوں اسمبلیوں سے بھاری اکثریت میں مستردکردیاجائے گا۔تحریک انصاف کے رہنماڈاکٹرعارف علوی کاکہناتھاکہ اسلام میں بھی مصالحت کے فروغ کوترجیح دی گئی ہے۔تحریک انصاف کی پالیسی ہے کہ وہ ملک میں تمام ترمعاملات کاحل بات چیت اورمیڈی ایشن کے طریقہ کارسے چاہتی ہے۔جے یوآئی رہنماقاری عثمان نے کہاکہ اسلام نے تنازعات اور معاملات کوبات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کوترجیح دی ہے۔حضورکے دورمیں بھی لوگوں کے درمیان تنازعات اور تلخ کلامی ہوئی۔لیکن انہوں نے تمام معاملات کومیڈی ایشن کے طریقہ کارسے حل کیا۔اسلام نے تاریخی دورمیں میڈی ایشن کاطریقہ کارمتعارف کروایا۔سپاڈوکے ڈائریکٹررضاشاہ خان نے کہاکہ جس معاشرے میں رول آف لاء اور انصاف کی فراہمی ممکن نہ وہاں دہشت گردی،انتہاپسندی اور جرائم میں اضافہ ہوجاتاہے۔معاشرے میں حالات کی بہتری کیلئے معاشرے میں میڈی ایشن کے نظام کوفروغ دیناہوگا۔تاکہ لوگ ذہنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکیں۔انہوں نے بتایاکہ 2013کواسلام آبادمیں ہونیوالی نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں رپورٹ سامنے آئی۔جس میں بتایاگیاکہ 17لاکھ مقدمات زیرالتواء ہیں۔جن کی آج تک سماعت نہیں ہوسکی ہے۔انہوں نے کہاکہ میڈی ایشن سے ان معاملات کوجلدازجلدحل کرنے میں مددملے گی۔ورکشاپ سے این سی ڈی آرکے چیف آپریٹنگ آفیسرابراہیم سیف الدین،اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری یونس بونیری،پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں ودیگرنے بھی خطاب کیا۔