|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2015

کوئٹہ: بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے مشکے آپریشن و پانچ بلوچ فرزندوں کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں کارروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان سے لاپتہ لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی کاروائیوں سے خوف و ہراس و عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا جا چکا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آج مشکے کے نواحی علاقے مُرماسی،نوکجو اور مختلف علاقوں میں فورسز نے آپریشن کر کے کئی گھروں کو نذرآتش کرنے کے بعد ایک درجن سے زائد لوگوں کو اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔جبکہ پہلے سے اپنی تحویل میں موجود پانچ بلوچ فرزنداں درویش ولد نورالدین،اخترولد علی،عمر ولد رحیم خان سمیت پانچ افراد  کی مسخ شدہ لاشیں اسی کاروائی کی آڑ میں پھینکی گئیں جنہیں ایک ہفتہ قبل نوکجو رندک میں ان کے گھر و کھیتوں سے فورسز نے اغواء کیا تھا۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں نہتے لوگوں و سیاسی کارکنان کا قتل ایک سنگین صورت حال اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی قتل عام سے عام لوگ شدید خوف و ہراس عدم تحفظ کا شکار ہیں، کیوں کہ آبادیوں کے اندر موجود چوکیوں میں لوگوں کو اُٹھا کر لاپتہ کرنے اور پھر بغیر کسی قانونی کاروائی کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے سے انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی غیر متوازن ہورہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ریاستی ادارے مقامی سرداروں سمیت جرائم پیشہ گروہوں کو استعمال کررہے ہیں۔بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے حکومت بلوچستان میں فورسز کے سول ادارے کی حیثیت سے سرگرم ہے۔بلوچ نوجوانوں کو اغواء و انہیں قتل کرانے اور بلوچ آبادیوں پر حملہ آور ہونے کے لئے فورسز کو صوبائی جماعت کی رہنمائی حاصل ہے۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے ریاستی ادارے بلوچ تحریک کو ختم کرنے اوربلوچ معاشرے کی سیکولر شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔پاکستان اور چائنا مشترکہ حکمت عملی کے تحت بلوچ قومی تحریک کے خلاف پیشہ ور قاتلوں اور مذہبی شدت پسندوں کے گروہوں کو مسلح کررہے ہیں تاکہ ان کے ذریعے بلوچ معاشرے کو آپس میں دست وگریباں کیا جا سکے۔ ترجمان نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور نسل کشی کی کاروائیوں کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اداروں کی خاموشی خطے کو کسی بڑے نقصان کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ جس کا شکا ر نہ صرف بلوچ عوام ہوں گے بلکہ اس کے منفی اثرات ہمسایہ ممالک پر بھی پڑیں گے۔