|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2015

آج کل مری معاہدہ کا بڑا چرچا ہے ۔کہ 5 دسمبر 2015 کو چند دن باقی رہ گئے ہیں ۔یہ معاہدہ دراصل ایک سہ فریقی میثاق ہے ۔جو جون 2013 کو مری کی پر فضاو شاداب وادیوں میں تین سیاسی پارٹیوں کے درمیان طے ہوا تھا ۔یعنی مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو نے سر جوڑ کر بلوچستان میں حکومت سازی کے گنجلک اور پر پیچ مسئلہ کو بہ حسن و خوبی سلجھایا تھا ۔جس کے تحت ایک متفقہ فارمولا طے کیا گیا تھا جس میں اور بہت ساری شقوں کے علاوہ سب سے نمایا ں شرط یہ ٹھہری تھی کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اڑھائی سال کے لئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہوں گے اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے وزیر اعلیٰ چن لیا جائے گا ۔بادی النظر میں لگتا ہے کہ حکومت اپنے لوگوں کی ہو گی ،اس کا سربراہ بدل دیا جائے گا ۔وزارتوں میں ردو بدل ہو گی یا نہیں اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ جب 2013 میں عام انتخابات ہوئے تھے تو اس میں بلوچ علا قوں میں بہت کم ووٹ پڑے تھے کہ وہاں پر عسکریت پسندوں کا راج تھا ۔ان علاقوں میں کوئی 3 فیصد کے قریب ووٹ بھی نہیں پڑا تھا ۔البتہ جھاؤ میں کوئی 500 ووٹ کاسٹ ہوئے اور قدوس بزنجو صوبائی اسمبلی کے ممبر اور بعد میں ڈپٹی سپیکر بنے اور کچھ مہینے سے جان جما لی کے استعفیٰ کے بعد قائم مقام سپیکر بلوچستان اسمبلی بنے ہوئے ہیں ۔ البتہ سابق برٹش بلو چستان ،نصیرآباد ڈویژن اور لسبیلہ ضلع میں کافی ووٹ پڑے تھے جس کے نتیجہ میں پشتونخوا عوامی ملی پارٹی نمایاں ہو گئی کہ اس نے افغان مہاجروں کی ووٹوں کو اپنے کھاتے میں ڈالااور بلوچوں کی کوئٹہ و چاغی کی نشستیں اس کو چلی گئیں ۔دسرے نمبر پر مسلم لیگ اور تیسرے نمبر پر نیشنل پارٹی (بلوچ)آئی ۔میں نے عملاً بلوچ لکھ دیا کہ اس کو حاصل خان بزنجو بلوچستان نیشنل پارٹی کہہ سکتے ہیں اور نہ پاکستان نیشنل پارٹی کے کہیں حامی اس کومیر غوث بخش بزنجو کی پارٹی سے منسوب نہ کریں ۔ دنیا میں ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں پر انتخابات میں ووٹ ڈالنا ہر شہری کے لیے لازم ہوتا ہے یعنی قانوناً فرض ہوتاہے ۔اگر کوئی شہر بغیر قابل جواز سبب کے ووٹ نہ ڈالے تو اس کا یہ انکار قابل مواخذہ ہوتا ہے یعنی اس کو قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے اور کچھ ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں پراگر کوئی امیدوار 50% سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکے تو دوبارہ پولنگ ٹاپ کے دو ٹاپ کے امیدواروں کے درمیان ہوگی تا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی 50% سے زیادہ ووٹ لے کر کامیا ب قرار پائیں ۔پاکستان میں یہ دونوں شرائط قانوناً موجود نہیں ہیں اس لئے بہت سے امیدوار لاکھوں میں سے سینکڑوں ووٹ لے کر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں اور بلوچستان میں یہ روایت بہت کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے کہ 1970 کے آزادانہ انتخابات کے بعد ملک میں آزادانہ اورشفاف انتخابات کا ہونا ایک سہانا خوا ب ہو کر رہ گیا ہے کہ مقتدر قوتیں کہتی ہیں کہ 1946 میں پہلے عام انتخابات آزاد شفاف تھے جن میں ہندوستان کے بطن سے پاکستان نے جنم لیا یعنی ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور 1970 میں دوسرے اسی قسم کے آزادانہ انتخابات ہوئے تو پاکستان دو لخت ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔اس لئے وہ سہانہ خواب اب نائٹ میئریعنی ڈراؤنا خواب میں بد ل چکا ہے ۔اس کو دیکھنے کی تمنا چھوڑ دو ورنہ خوابوں کی دنیا میں رہ کر اپنی دنیا سے الگ رہ جاؤ گے ۔تن تنہا ،اکیلا نہ خدا ملے گا اور نہ وصال صنم ہو گا ۔ ان تاریخی و قو عا ت کے بعد مقدرہ کو زہر کا یہ گھونٹ ہر بار پینا پڑے گا کہ عام انتخابات کو ہر صورت میں مثبت نتائج کا حامل بنا دیا جائے ۔قومی اسمبلی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن ) کو بر تری حاصل ہوئی ۔عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخواہ میں مجارٹی ملی اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت ملی اور بلوچستان میں کسی پارٹی کو اپنی اکثریت نہ ملی کہ وہ دوسری ایک پارٹی کو ملا کر حکومت بنا سکے ۔اس لئے پاک سیاسی و عسکری قیادت نے ایک پیج پر آ کر فیصلہ کیا کہ ایک ایسے منجھے ہوئے تعلیم یا فتہ شخص (ڈاکڑ عبدالمالک بلوچ)کو درمیانہ طبقہ سے چُن کر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا جائے جو روایتی سرداریت اور ایلیٹ ازم کی آلودگی سے دور رہا ہو ۔چنانچہ بی ۔ایس ۔او (اینٹی سر دار ) کے بنیادی کارکن اور رہبر کو جو کہ 1988/1996 میں وزیر تعلیم و صحت رہے اور چھ سال تک سینیٹر رہے اور گزشتہ ڈھائی سالوں سے جو بلوچستان کے مخلوط حکومت کے سر براہ ہیں ۔آ پ نے اس عہدہ کا حلف 9 جون 2013 کو اٹھایا جبکہ بلوچستان ابتدائی دور سے گزر رہا تھا ۔آپ نے ان تمام نا گزیر حالات کے تناظر میں اس بگڑتے ہو ئے زخم و زخمی بلو چستان کو قبول کر کے وا قعی اپنی بلوچیت اور ہمت مردانہ کا ثبوت دیا ۔سب سے پہلے آپ نے پانچ سالوں کی ایک ڈس فنکشنل (Disfunctional) حکومت کو فنکشنل بنا دیا تو انہوں نے روایتی لا انفور سمنٹ ایجنسیوں کے تعاون سے نہ صرف ان عفریتوں کو کنڑول کیابلکہ بلوچ عسکری مزاحمت کاروں اور ان کی قیادت سے مختلف ذرائع سے رابطہ کر کے ان سے ملاقاتیں بھی کیں اور یوں تمام حل طلب سیاسی مسائلوں کو کسی حد تک ایڈجسٹ کیا ۔ ڈاکٹر مالک صاحب نے ناراض بلوچ رہنماؤں سے جو دیس پر دیس جلا وطنی کی زندگی گزا رہے ہیں ۔ان کو دیش بلوچستان لانے کی بامعنی اور قابل قدر گفت و شنید بھی کی ہے اور ان کے مطالبات اور تحفظات وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف تک پہچائے ۔اب با ل مرکزی حکومت کی کورٹ میں ہے ۔ان کو چاہیے کہ ان کو ایڈجسٹ کر کے براہ راست گفت و شنید کا آغاز کریں ان کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے جنگ و جدل کی مکرو فضاء کو بدل کر باہم اعتماد اور بھروسہ کی فضا ہموار کر یں تا کہ جمہوریت کی جو بنیاد پڑ چکی ہے اس کی بنیاد کو وہ غذا میسر آجائے جس سے یہ پودا پھل پھول کر بار آور ہو جائے ۔دنیا کے سارے جمہوری پالیمانی نظاموں میں حکومت کا دستوری دورانیہ یعنی Tenure پانچ سال کا ہوتا ہے تا کہ جس پارٹی کو اسمبلی یاایوان میں اکثریت حاصل ہو اس کو پانچ سال تک حکومت کرنے دی جائے تا کہ عوام الناس اندازہ لگا سکیں کہ حکومت نے عوام کے مفاد میں کون کون سے اقدامات کئے اور ان کی شکایات کا کہاں تک ازالہ کیا اور اسی کو لے کر وہ آئندہ انتخابات میں اس کو ووٹ دیں یا کہ دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کی کار کردگی خاص کر امن و امان ،تعلیم و صحت کے شعبوں میں قابل ستائش ہے ان کو جاری رکھنے اور خوش کن انجام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے ان کو پانچ سال تک وزیراعلیٰ رہنے دیا جائے ۔مری معاہدہ نہ کوئی سیگنا کارٹا ہے نہ میثاق مدینہ ہے بلکہ ایک عام سا ایگریمنٹ ہے کہ ڈھائی سال کے بعد اگر یہ حکومت ڈلیور نہ کر سکے تو مسلم لیگ (ن) کو موقع دیا جائے کہ شاید وہ بہتر کام کر سکے کہ مرکز میں بھی ان کی حکومت ہے ۔مگر میں وزیر اعظم نواز شریف کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اٹھارویں ترمیم کا بھرم رکھا اور صو بائی حکومت کے اختیارات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی اور حکومت اپنی پارٹی کو نہ دے کر انہوں نے بلوچ اور پشتون قوم پر ست پارٹیوں کو حکومت دے کر اپنی پارٹی کی حمایت ان کو دیدی تو وہ کامیاب ہوئے ۔اس کامیابی اور جمہوری تسلسل اور گڈ گورننس کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیا جائے ۔فیصلہ انہوں نے اور متقدرہ اعلیٰ نے مل کرنی ہے جو یقیناًملک اور صوبے کے مفاد میں کیا جائے گا ۔