|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2015

توقع کے مطابق وفاقی حکومت نے منی بجٹ نافذ کردیا اس منی بجٹ کے ذریعے حکومت 379ملین ڈالر یا چالیس ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کرے گی یہ آئی ایم ایف کا نہ صرف مطالبہ تھا بلکہ دباؤ تھا کہ عوام الناس پر چالیس ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جائے ۔ چنانچہ آئی ایم ایف کا حکم تسلیم کیا گیا اور منی بجٹ کا اعلان کیا گیا ۔ مسلم لیگ چونکہ تاجروں کی جماعت ہے یا اس کے فیصلہ کرنے والوں میں تاجر حضرات پیش پیش ہیں ۔ اس لئے مسلم لیگ کی حکومت عوامی مفادات کو نظر انداز کرتی ہے اور تاجر ‘ صنعت کاروں کی مفادات کے تحفظ کو اولیت دیتی ہے ۔ ٹیکسٹائل مافیاکا ہر مطالبہ پورا کیاجاتا ہے ہر بار اس کو اربوں روپے کی ریلیف کسی نہ کسی بہانے دی جاتی ہے ۔ آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ ٹیکسٹائل مافیا کا کوئی مطالبہ رد کیا گیا ہو یا ان کو چند دن سے زیادہ کسی بھی مسئلے پر احتجاج کرنا پڑے ۔ ان کے مطالبات کوجلد از جلد پورا کرنے کے لئے صرف جواز تلاش کیاجاتا ہے بلکہ مافیا سے کہا جاتا ہے کہ آپ احتجاج کریں ہم اربوں روپے آپ کے قدموں پرنچاور کردیتے ہیں اس طرح سرکاری خزانے کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے یوں بے رحمی سے سرکاری اخراجات نے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے ۔ صوبائی اور وفاقی وزراء آئے دن تفریحی دوروں پر جاتے ہیں ۔ وزراء اکثر اپنے دفاتر میں نہیں ہوتے اور نہ ہی پارلیمانی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں ان کا شوق صرف شاہ خرچیاں ہیں وزیراعظم سے لے کر اس کے کابینہ کے اکثر وزیر انہی عادتوں کے اسیر ہیں ’ دوسری طرف معیشت تباہی کی جانب رواں دواں ہے ۔ اگلے روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات نے کہا کہ ملک کی قومی آمدنی کا نوے فیصد قرضوں کی ادائیگی اور ملکی دفاع پر خرچ ہوتا ہے ۔ عوام الناس کے لئے صرف دس فیصد بچ جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس قلیل ترین آمدنی سے ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی ادارے حکومت پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ بجٹ خسارہ کم کریں ، اخراجات میں کمی لائیں ۔ مگر مجال ہے کوئی بھی وزارت اپنے بجٹ میں کمی پر راضی ہو ۔ بجٹ خسارے میں کمی کا واحد اشارہ یہ ہے کہ حکومت کے انتظامی اخراجات میں کمی کی جائے نہ کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی جائے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اخراجات میں کمی کا مطلب صرف ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کو لیا گیا ،نہ سرکاری محکموں کے انتظامی اخراجات میں کمی کی گئی اور نہ ہی وزراء اور افسران کے مراعات میں کمی کی گئی بلکہ اس کا زیادہ آسان اور مناسب راستہ افسر شاہی نے یہ دکھایا کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیاجائے ۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق کمی نہ کی جائے ۔دنیا بھرمیں تیل کی قیمت چالیس ڈالر فی بیرل سے نیچے آئی مگر حکومت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ قیمتوں کو برقرار رکھا جائے اس میں کمی سے حکومت کی آمدنی میں کمی ہوگی جو موجودہ شاہانہ حکومت کے لئے نا قابل برداشت ہے ۔ حکومت کی آمدنی میں کمی کا مطلب وزراء کی مراعات اور عیاشیوں میں کمی ہے اس لئے اس کا متبادل ذریعہ ٹیکسوں میں اضافہ اور عوام پر اضافی بوجھ ڈالنا ہے ۔ ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ معیشت میں بحران کا سب سے زیادہ اثر بلوچستان پر پڑتا ہے چونکہ بلوچستان اور اس کے نمائندے وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہیں اس لئے بلوچستان کے جائز مفادات کی کوئی نگرانی نہیں کرتا۔ لہذا سب سے پہلے بلوچستان کے جائز مفادات پر حملہ ہوتا ہے ۔ ان کو حکمران پیروں تلے روندتے ہیں اس کی بجٹ میں کمی کرتے ہیں ۔ دہائیوں سے وفاقی بجٹ میں بلوچستان کی ترقی کے لیے جو رقم مختص کی جاتی ہے اس کا آدھا بھی کبھی خرچ نہیں ہوا ۔ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتا نہ وفاقی حکمرانوں کا اس معاملے میں احتساب کیاجاتاہے کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی کیوں کی جاتی ہے ۔ اس کی ایک زندہ مثال گزشتہ پندرہ سالوں میں گوادر کی اہم ترین بندر گاہ پر ایک روپیہ اضافی خرچ نہیں ہوا ۔ اس کے ائیر پورٹ کی تعمیر کا کام تک شروع نہیں ہوا ۔ اس سال کے بجٹ میں بھی ان منصوبوں پر کوئی خرچہ نہیں ہوگا وجہ وسائل کم ہیں اولیت پنجاب کو حاصل ہے بلوچستان کے پاس وہ جمہوری قوت نہیں کہ وہ وزیراعظم کو باہر نکالے یا اپنی مرضی کی حکومت وفاق میں قائم کرے یہ قوت پنجاب کے پاس ہے اس لئے حکمرانی بھی پنجاب کی ۔ بلوچستان کی ترقی ثانوی حیثیت رکھتی ہے اولیت نہیں ۔منی بجٹ نافذ کریں گے تو کچھ ملے گا ورنہ نہیں ۔