|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2016

دنیا کس جانب رخ کر چکا ہے اس کا صحیح اندازہ لگانا اب ماہرین کے اندازوں سے بھی باہر ہوتی جارہی ہے سائنسی ا رو مادی ترقی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک طوفانی انقلاب نے اس وقت ہر طرف حیرانی و پریشانی کی کیفیت برپا کردی ہے زمین سمٹتی ہوئی محسوس ہورہی ہے ۔ حالات کبھی ایک ہی سمت میں چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اس قدر بے قابو نظر آتے ہیں کہ دیکھنے والے اور سوچنے والے دم بہ خود ہو کر رہ جاتے ہیں معاشی ترقی اور معیشت انفرادی ‘ اجتماعی گروہی ‘ ملکی مسئلہ بن چکا ہے ۔ جہاں اجتماعی معاشی ترقی کی بات بنتی نظر آئے وہاں افراد کے ساتھ گروہ بھی اکھٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر اندرون خانہ تقسیم درتقسیم کے انگنت مسائل کا شکار بھی ہیں ۔ ماہرین دنیا کو کئی بلا کس میں منقسم بتاتے ہیں ۔ البتہ دو بلاک واضح ہیں ایک بلاک سرمایہ کاروں کی جو روز بہ روز دنیا کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے نت نئے منصوبے بنا رہا ہے ۔ دوسری جانب انسانی آبادی کو برابری کی بنیاد پر وسائل کی بندر بانٹ کرکے متحرک ہے لیکن مفادات کی یہ جنگ ایک ہی طرف منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ اور وہ منزل حصول وسائل کے لئے نظریاتی ‘ خیالی ‘ اور عملی طاقت کے حصول کیلئے جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ بعض صاحب قلم لکھتے ہیں کہ عقیدوں کی جنگ کی طرف دنیا بھڑ رہی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا معاشی جنگ میں حد سے زیادہ آگے نکل چکی ہے ۔ عقیدے ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ اب عالمی سطح پر عالمی مفاد پرست جمع ہور ہے ہیں شاید اس پر بعض لوگوں کو اتفاق نہ ہو مگر آنے والے وقت میں کئی مشکلات کے ساتھ یہ مسئلہ انتہائی خطر ناک شکل میں سامنے آسکتا ہے ۔ اگر مشرق ‘ مغرب جنوب شمال میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو عقیدے اب ذات تک محدوود اور معیشت اجتماعی مسئلہ بن کرابھر رہا ہے دنیا اب عقیدے پر اکٹھا نہیں ہوگا بلکہ معاشی مفادات کے حصول میں اکٹھا نظر آئے گا جو کافی پر خطر ہے ۔ اور یہ عالمی نظریہ ضرورت ہے ۔ رواں دہائی میں اگر کسی بھی جگہ جنگ چھڑ جائے تو مخالفین ایک دوسرے کے معاشی اہداف کو نشانہ بنائیں گے معاشی تباہ کاری کے اثرات تادیر باقی رہنے والے ہونگے بہ نسبت جانی نقصان کے ۔جبکہ جغرافیائی حدیں بلحاظ معیشت سازی اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ ایک طرف معاشی ترقی و انفارمیشن انقلاب نے لوگوں کی ذہنیت کو اس قدر تبدیل کردیا ہے کہ اس گروہ یا قوت کے خلاف نفرتیں شدید ہونگی جو انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر زور دے گا اور جہاں انسانی جانوں کا نقصان زیادہ ہو بلکہ لوگ ٹیکنالوجی میں سبقت نئے ایجادات اور عملی جنگ میں زیادہ دلچسپی لے ر ہے ہیں جس جگہ انسانی آبادی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے وہاں معاشرہ منجمد ہو کر ان قوتوں کو رد کرتی ہوئی آگے بڑھے گی ۔ واشنگٹن ‘ یروشلم ‘ دہلی ‘ ریاض ‘ تہران‘ ماسکو ‘ کابل ‘ لندن ‘ دوہا ‘ بیجنگ ‘ بغداد ‘ استنبول ‘ قاہرہ ‘ دمشق ‘ اور چند ایک دیگر ممالک کی دارالحکومتیں دہشت و حشت کے نام پر جانے جاتے ہیں ۔ ان دارالحکومتوں میں انسان کش پالیساں ترتیب دی جاتی ہیں اور ان ہی ممالک میں سائنسی علمی ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے منصوبوں پر سالانہ اربوں ڈالرز کے اخراجات بھی ہورہے ہیں ۔ ان ممالک کی فہرست سے اگر آپ اسلام آباد کو الگ کریں گے تو یہ بھی ایک تلخ بددیانتی ہوگی ۔ میں نے بعض مسائل کو اشارہ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ معلوم ہو کہ منفی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں دہشت وحشت کی پالیسیوں پربھی عمل ہورہا ہے ۔ انسانی آبادی اب خود کو محفوظ دیکھنا چاہتا ہے ۔ تحفظ انسانیت اب ہر چیز سے بالا تر دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کے لئے جغرافیائی معاشی مفادات بھی قربان کرنے ہونگے۔ مجموعی طورپر ہم پر محسوس کرتے ہیں کہ اس کے باوجود معاملات ایک خطر ناک معاشی مفادات کی جنگ طرف بڑھ رہی ہیں ۔جذبہ حب الوطنی ‘ عقیدہ ‘ ہم خیالی سے عاری قوتیں ‘ پروان چڑھ رہی ہیں ۔ جس قدر مفادات مشترک ہوں گے وہاں گروہ بنتے ہیں ۔ اور یہ گروہ بندی معاشرتی ‘ علاقائی ‘ لسانی ‘ صوبائی ‘ ریجن ‘ وائز بنتے بگڑتے رہیں گے۔ دنیا میں اس وقت معاشی مقتل گائیں جنم لے رہی ہیں ’ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے پاکستان میں معاشی مقتل گاہ تھر کی صورت میں بھی نظر آتی ہے ۔ جہاں معیشت کی کمزوری سے معصوم بچے روزانہ ہلاکت کی نذر ہورہے ہیں ۔ خوراک اور ادویات کی کمی معیشت کی زبوں حالی کی دلیل ہوسکتی ہے ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں تھر کی صورت حال کو کم عمری میں شادی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن یہ شادی کی رسمیں صدیوں سے ان علاقوں میں چلی آرہی ہیں پہلے کیونکر یہ صوت حال نہیں بنی البتہ پاک چائنا کوری ڈور بھی خطے میں میرے اندازے کے مطابق خطرے کی گھنٹی ہے یہ کوری ڈور ضرورت مندوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے ہماری حکومت اس کوری ڈور کو مکمل کرنے کے لئے ہزاروں جانوں کی قربانی کا تہیہ کرچکی ہے ۔ اسے کسی بھی صورت مکمل کیا جانا ہے جوں جوں اس منصوبے پر عمل ہوتا رہے گا خطے میں بالخصوص پاکستان اوربالخصوص بلوچستان اور کے پی کے میں مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا لگتا یوں ہے کہ کوری ڈور مخالف قوتیں انسانی جانوں کو ڈال کے طورپر استعمال کریں گی اور یہ منصوبہ التواء میں پڑ جائے گا چونکہ کوئٹہ میں پولیو ورکرز پر حملہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ابتدائی علامات ہیں ۔ معیشت کوری ڈور یا کوڑیوں کا ڈھیر اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چائیے کہ کوئی گروہ قوم یا ملک اس پر ہرگز خوش نہیں ہوگا کہ اقتصادی ترقی کے لئے ان کے عوام کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو اور وہ منصوبہ خطرات و نقصات کے باوجود جاری ہو ۔ گوادر سے چائنا تک کوری ڈور کو بے شک مکمل کی جائے لیکن کوری ڈور کے گزر گاہوں سے وہاں کی انسانی آبادی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور گوادر کاشغر کوری ڈور کو پایہ تکمیل پہنچایا جائے حکومت پاکستان کے لئے کوری ڈور کے گزر گاہ میں آنے والے علاقوں کا مکمل تحفظ نا ممکن ہے اور اس کی گارنٹی بھی نہیں دوسری جانب حکومت پاکستان یہ بھی گارنٹی دے کہ بلوچستان اور کے پی کے کے عوام کو ان کی قربانیوں کے بقدر حقوق دئیے جائیں گے ۔ اگرایسا ہونا بھی ممکن نہ ہو تو اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوری ڈور کوڑیوں کے ڈھیر میں تبدیل نہ ہو ۔ بہر حال بلوچستان اور کے پی کے کے علاوہ ملکی سیاستدانوں، دانشوروں اور عوامی نمائندگان کو اعتماد میں لے کر کام آگے بڑھا جائے لوکل آبادی اور عوام کے تعاون کے بغیر کوئی منصوبہ احسن طریق سے مکمل کرنے مشکل عمل ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ پاک چائنا کوری ڈور فی الحال معاشی ترقی کا باعث بنے گامگر بھاری قیمت کے عوض ۔