|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2016

پرانے زمانے کی کہاوت ہے ایک بادشاہ نہایت ایماندار غریب پرور اپنی عوام کیلئے ہمدرردی رکھنے والے شفیق انسان تھے لیکن ان کے اردگرد جو وزیر مشیر تھے کرپٹ خوشامدی اور عوام کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے بادشاہ پریشان تھا آخرکیا جائے ایک دن ایک نہایت مفلس غریب آدمی بادشاہ کے حضور پیش آیا عرض کیا بادشاہ سلامت مجھے کام دیا جائے بادشاہ نے اس غریب کو اپنا مشیر مقررکردیا جن کی تعیناتی کے کچھ دنوں کے بعد محل کے نظم وضبط میں بہتری آنے لگی بادشاہ کے عین خواہشات کے مطابق کام ہونے لگے تو پرانے مشیر اور وزیر دور ہونا شروع ہوگئے یہ عمل دیکھ کر سازشی وزیروں اور مشیروں نے نئے مشیر کو ناکام بنانے کیلئے سازشیں شروع کردیں کیونکہ نئے مشیر صاحب بادشاہ سے آنکھ چرا کر ہر پندرہ دن کے بعد اپنے گھرجاتے کمرہ کو کھولتے کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس محل آ جاتے اس عمل کی وزیروں اور مشیرو ں نے جاسوسی کی اور بادشاہ سلامت کے کان بھرنے شروع کردیئے حضور عالیٰ جہاں نئے مشیر کرپشن لوٹ مار کر رہے ہیں ہر پندرہ دن کے بعد وہ اپنے کمرے میں جاتے ہیں ہیرے جواہرات سونا چاندی چرا کر رکھ رہے ہیں بادشاہ کو تشویش ہوئی اس نے اپنے سپا ہی تحقیقات کرنے کیلئے اس کے گھر روانہ کیئے نئے مشیر کی غیر موجودگی میں کمرہ کا تالا توڑا تو کمرے کے کونے میں پرانی صندوقچی پڑی ملی وہ بادشاہ سلامت کے پاس خوشی خوشی لائے کہ آج ایماندار مشیر جائے گا دوبارہ ہمارے لوٹ مار کے مزے کرنے کا دور دورہ شروع ہو جائے گا جب تالا توڑ کہ دیکھا تو بادشاہ حیران وپریشان ہوگئے اس میں ہیر ے جواہرات سونا چاندی تو نہ ملے البتہ پرانی پگڑی پرانا جوڑا کپڑوں کا اور پرانے جوتے ملے تو بادشاہ سلامت نے نئے مشیر کو طلب کیا اور پوچھا کیا ماجراہے تو انہوں نے کہا بادشادہ سلامت میں ہر پندرہ دن اس لیئے کمرے میں جاتا اور اپنے پرانے کپڑے جوتے دیکھتا کہ کہیں میر ے اندر غرور پیدا نہ ہوجائے اور میں اپنی اصلیت کو کھو نہ دوں یہ سن کر بادشاہ نے اپنے تمام کرپٹ خوشامدی وزیروں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا جو غریب عوام اور بادشاہ کے درمیان ایک دیوار بنے ہوئے تھے ۔اب بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے مری معاہدے کے تحت نواب ثناء اﷲ خان زہری وزیراعلٰی بلوچستان بن چکے ہیں اپنے نئی ترجیحات کا اعلان کر چکے ہیں انہیں بھی بادشاہ کی طرح ارد گرد خوشامدیوں سے بچنا ہو گا جو ہر دور میں پارٹی پوزیشن تبدیل کرکے حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں ان کا ٖصرف اور صرف ایک نقطہ ہوتا ہے کہ حکومت میں رہ کر اپنی معشیت کو بہتر بنانا ہے اور اپنے کاروبار کو وسعت دینی ہے ابتدائی طور پر نواب صاحب نے کابینہ تشکیل دینے میں ضرور لیٹ کی لیکن پہلے مرحلے میں خوشامدیوں سے بچ گئے ہیں لیکن ان کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ارد گرد بیٹھے نظر آ رہے کیونکہ نواب صاحب آپ خوش قسمت ہیں آپ کی ٹیم میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نواب چنگیز خان مری ،میر غوث بخش بزنجو صاحب کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو کی مشاورت شامل ہے آپ کے بزرگوں کی بلوچستان کیلئے خدمات نا قابل فراموش ہیں انہوں نے بلوچستان کی تعمیر وترقی ساحل وسائل کی حفاظت کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیںآپ لوگوں پر بھی بھاری ذمہ داریاں ہیں کہ ان کے نام کو روشن کرنے کیلئے بلوچستان کی تعمیر وترقی کیلئے عظیم منصوبے بنائیں اب بلوچستان میں قوم پرستی اور ناراض بلوچ بھائیوں کو قومی دھارے میں لانے کی سیاست کانعرہ دم توڑ چکاہے ہر آنے والی حکومت ان دو بڑے ایشوز کو لیکر آتی ہے وفاق سے اربوں کھربوں روپے لیئے جاتے ہیں نتیجہ صفر رہتا ہے سابق وزیراعلیٰ ڈاکڑ عبدالمالک بلوچ نے ان دو نعروں کی تکمیل کیلئے اپنے ڈھائی سال گزار دیے ۔ بلوچستان کی عوام کی محرمیوں کو دور کرنے کی باتیں محض باتیں ثابت ہوئیں گوادر کے شہریوں کو پینے کا پانی تک نہ دے سکے آج ان کی مہربانیوں سے گوادر کے عوام پندرہ ہزار روپے میں فی پانی کا ٹینکر خرید کر خود کو زندہ رکھنے کی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ایسا نہ ہوکہ ان کے بچے، بوڑھے والدین پیاس سے مر جائیں اور غیر مقامی افراد آکر گوادر کو آباد کریں۔ بلوچستان کی تعمیر وترقی کیلئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں سابق صدر آصف علی زرداری نے صوبے کو صوبائی خود مختیاری دی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کو فنڈز اور گیس رائلٹی کی مد میں اربوں روپے فنڈز ملے جن کا تسلسل اب بھی جاری ہے ہر ارکان صوبائی اسمبلی کو 30سے 35کروڑ رقم ظاہری طور پر دی جارہی ہے جبکہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی خوشامد کرکے الگ فنڈز حاصل کیئے جا رہے ہیں اس کے باوجود بلوچستان کے اکثر اضلاع کے عوام پینے کے صاف پانی کیلئے پریشان ہیں غریب عوام پینے کے پانی کیلئے محتاج بنا دیئے گئے ہیں وہ پینے کے صاف پانی کا مطالبہ نہیں کرتے صرف پانی ہو چاہے گندا ہی کیوں نہ تاکہ ان کے جانور مرنے سے بچ جائیں اگر دیکھا جائے تو ان مسائل کے حل کا تعلق براہ راست صوبائی حکومت اور اراکین اسمبلی سے ہے ناکہ وفاقی حکومت سے ۔اراکین اسمبلی پی اینڈ ڈی کی ناک کے نیچے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ترقیاتی فنڈز سے ایسے منصوبے بنا رہے ہیں جن سے عوام کے بنیادی مسائل کا تعلق ضرور ہے لیکن اتنی اشد ضرورت نہیں ہے جن پر اتنا زور دیا جا رہا ہے ان میں اکژمنصوبے جیسے تعلیمی اداروں، محکمہ صحت، محکمہ حیوانات کی بلڈنگ تعمیر کرنے سے قبل بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کی جارہی ہے حتیٰ کہ وہ ان علاقوں میں منظور شدہ نہیں ہیں جن کی تعمیر کے بعد عوام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے بااثر افراد اپنے مہمان خانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے حکومتی پیسہ کا ضیاع ہو جا تا ہے اگر محکمہ پی ینڈ ڈی یا تحقیقاتی ادارے تحقیقات کرائیں تو سینکڑوں کی تعداد میں لاوارث بلڈنگز ملیں گی جن کے ذمہ دار جتنے اراکین اسمبلی ہیں اس سے بڑھ کر محکمہ کے آفیسران بھی ہیں جو محض اپنی پوسٹنگ بچانے کیلئے اس کالے دھندے میں شامل ہوجاتے ہیں اگر صوبائی حکومت نے ان گزارشات پر عمل نہ کیا تو ہر سال ایسا عمل دوہرایا جائے گا وفاق صوبائی حکومت کوفنڈز دیتی رہے گی مہمان خانے بنتے رہیں گے اب میڈیا اور فیس بک کا دور ہے اچھائی اور برائی چھپ نہیں سکتی ہے عمران خان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے تبدیلی لانی ہو گی غریب عوام کو پینے کا پانی ،بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بلوچستان کے عوام کی احساس محرومی جوں کی توں ہے ۔ اسمبلیوں میں پہنچنے سے قبل جو اراکین دودھ فروخت کرتے تھے اور پرچون کی دکانیں چلاتے تھے مسجد کی پیش امامی کرنے والے یا پھر ایک دوبلاک زمین رکھنے والے آج پانچ سالہ جمہوریت کے مختصر عرصہ میں کھرب پتی سیاستدان کیسے بن گئے؟ کیا ہمارے تحقیقاتی ادارے بے خبر ہیں حالانکہ انتخابات سے قبل ان کا تمام بائیو ڈیٹا لیا جاتا ہے ۔