|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2016

16دسمبر کو سعودی عرب نے اپنی ہی سربراہی میں 34اسلامی ریاستوں کے ایک اتحاد کا اعلان کردیا تھا جس میں بنگلہ دیش اور ترکی سمیت افریقہ،ایشیاء اور دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔یادرہے اس اتحاد میں ایران کے ساتھ ساتھ شام بھی شامل نہیں ہے ۔اس وقت دنیا کے 52اسلامی ممالک میں معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ترین ممالک اس اتحاد میں شامل ہیں لیکن بی بی سی کے ایک تجزیے کے مطابق اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ ترکی ،بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی جمہوری ممالک کی موجودگی کے باوجود اسکی سربراہی سعودی عرب کر رہے ہیں مگر یہ بات ہرگز حیران کن نہیں لگے گی ۔تجزیہ کار اس اتحاد کو شام اور ایران کے صرف علیحدگی کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ ا سکے ایران اور شام مخالف اتحاد کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کریں ۔اس بات کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے ہی پاکستانی خارجہ سکریٹری نے ایک ہفتے کے اندر امریکہ اور عالمی طاقتوں کی شام میں بشارالاسد کی حکومت کی خاتمے کے متعلق روس نواز مو قف اختیار کرتے ہوئے کہاتھا کہ پاکستان شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کی حمایت نہیں کرے گی لیکن پاکستانی میڈیا پر کسی نے یہ فرمانے کی کوشش نہیں کی کہ پچھلے دوسال کے دوران دفتر خارجہ کو سعودی اتحاد میں شامل ہونے کے بعد شام کی کیوں سوجھی؟باقی بلوچ نے اپنی کتاب ’’ بلوچستان کا مسئلہ کیاہے کیا نہیں ہے‘‘ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی دفتر خارجہ جب نہیں کہے تو ہاں مرادلینا چاہیے اسکا ایک عملی مظاہرہ 16دسمبر2015 سعودی اتحاد کے تناظر میں بھی دیکھا گیا جس میں دفتر خارجہ اور سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کا نام اس اتحاد میں شامل ہونے پر حیرانگی کا اظہار کیا تھا اور یہ دلیل بھی داغ دی کہ پاکستان کو یمن میں فوجی کاروائی کے معاملے میں بھی سعودی عرب نے اعتماد میں نہیں لیا تھا اور یہ تہہ کر دیا کہ دفتر خارجہ نے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کو ہدایت دی ہے کہ وہ سعودی عرب حکومت سے رابطہ کرے ۔یہ تما کاروائیاں پاکستانی میڈیا پہ چلتی رہیں جبکہ 16دسمبر ہی کی رات بی بی سی نے خبر دی کہ پاکستان سعودی اتحاد میں شامل ہے سیکریٹری خارجہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعتراف بھی کیا کہ پاکستان اس اتحاد میں شامل ہے اور دلیل یہ دی کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف تشکیل دی گئی ہے اور چونکہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے اس لئے پاکستان ہر اس اتحاد میں شامل ہوگا جو دہشت گردی کے خلاف ہے جس پر بی بی سی نے کاؤنٹر سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ پاکستان داعش کے خلاف نیو عالمی اتحاد میں کیوں شامل نہیں ہوا؟۔۔۔۔ظاہر سی بات ہے اس اتحاد میں معاملات صرف دہشت گردی کے نہیں بلکہ مخصوص برانڈ کے دہشت گردی کے ہیں جنکا تعلق شیعہ مسلک سے ہے ۔ اس لئے عالمی اور علاقائی سطح پر اس سنی اتحاد کو شام اور ایران جیسے ریاستوں کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر سمجھا اور دیکھا جارہا ہے ۔اور دفتر خارجہ کی طرف سے ابتدا میں سعودی اتحاد میں شامل ہونے سے انکار نے اس سوچ کومزید تقویت دی ہے ۔ اب معلو م نہیں عالمی سطح پر شام ایک ریاست کے زمرے میں آتا بھی ہے کہ نہیں لیکن ایران اس وقت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اسلامی ممالک کے درمیان ایک معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے اسلامی نظریات کے عامل ایرانی ریاست دل یزداں ( مغربی طاقتوں) میں کتنا ہی کھٹکتا کیوں نہ ہو چونکہ مغربی طاقتیں ( سوائے روس کے) ایران سے جغرافیائی طور پر بہت دور ہیں اس لئے تمام معاشی ،سیاسی سفارتی اور ثقافتی خطرات کے باوجود ایران کے ساتھ بالواسطہ انکا کوئی باہمی معاملہ یا رشتہ نہیں ہے جبکہ پاکستان کے معاملے میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ایران وسطی ایشیا خلیجی ممالک اور جنوبی ایشیا میں نہ صرف انتہائی اہمیت کا عامل ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ جغرافیائی طور پر مربوط اور منسلک ہے اس کے برعکس یک قطبی دنیا اور عراق کے تباہ ہونے کے بعد ایران کی عالمی سیاسی بساط پر اپنی ایک حیثیت ہے جسے آنکھ بندکرکے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔لہذا ان ممالک کے ایران اور ایران کے ان ممالک پر داخلہ اورخارجی پالسیاں برائے راست دور اس اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔اس تناظر میں پاکستانی دفتر خارجہ کا ایران کے متعلق وضاحت آنی چاہیے تھا اگر یہ وضاحت نہیں کرتے تو شام کے متعلق سرے سے اسکی کو ئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ چند سال پہلے عالمی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ٹی وی ٹاک میں کہا تھا کہ پاکستان کی مشرقی سرحدی خلاف ورزیوں کے واردات اور محاذ آرائیاں مغربی سرحد پر شفٹ ہونے جارہی ہیں تو کافی دوست زیر لب مسکرادئیے لیکن دوسال پہلے امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں نرم کردیں تو اہل نظر کو دھند میں سے کچھ نظر آنے لگا تا وقتیکہ 6عالمی طاقتوں نے پیرس میں ایرانی ایٹمی پروگرام پر مذاکرات شروع کردئیے ۔اور ایران نے عالمی ایٹمی ادارے کے شرائط مشروط طور پر تسلیم کرلیے۔جسکی بنا پر عالمی( سفیر) نے ایران پر سے نہ صرف پابندیاں ہٹادیں بلکہ 1979 سے ایران کے مختلف ممالک میں منجمد تما م اثاثے بھی بحال کردئیے ایک دوسرے کو ’’ بڑا شیطان‘‘ کہنے والے 2014 کے اواخر میں ایک دوسرے کے لیے فرشتے نہ سہی اہل کتاب قوموں کے ذمرے میں آنے لگ گئے ۔اسکے بعد امریکہ ’’ عالمی طاقتوں‘‘ کے ساتھ ملکر 2015 میں 5 مفید یورینیم افرودہ کرنے کی اجازت دے دی یہ معاہدہ سوئزر لینڈ کے شہر لاو سنے میں 2اپریل2015کو طے ہوا تھا جس میں امریکہ برطانیہ،روس ،فرانس ،چین،اور جرمنی کے وزرا خارجہ نے دستخط کیے تھے ۔اس معاملے کے متعلق دلچسپ امر ہے کہ اس معاہدے کے دوسرے دن اسلامی اور خصوصی طور پر عرب کی طرف سے اس معاہدے کی مخالفت کی گئی ۔اس معاہدے کے دوران ایک سعودی محقق منصور المرزوکی نے الجزیر ہ ٹی وی پر ایک تجزیہ کیا۔16 دسمبر کو منصور المرزوکی کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی لیکن المرزوکی نے جان بوجھ کر سعودی عرب کے دشمنوں کے نام واضح نہیں کیے لیکن المرزوکی اچھی طرح جانتا ہے کہ سعودی عرب کے ان بے نام دشمنوں کو سب پہچانتے ہیں ۔سعودی عرب نے یہ اتحاد دہشت گردی کی دفاع اور مزاحمت کے لئے تشکیل دی ہے مگر اس وقت ’’ عالمی ضمیر‘‘ دہشت گردی کی کوئی خاص تعریف متعین نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی سعودی اتحاد میں شامل ممالک نے اس نئی اتحاد کے پس منظر میں کوئی وضاحت کی ہے کہ یہ اتحاد کس قسم کی دہشت گردی کے خلاف جہاد کرے گی ۔اس وقت سعودی عرب اپنی سرحد کے قریب یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار ہے جن کے متعلق ابلاغ عامہ میں کہا جاتا ہے کہ ان کو ایران اور شام کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ دوسری جانب اس اتحاد میں شامل اکثر مما لک خود دہشت گردی کے شکار ہیں جن میں پاکستان اور سوڈان سر فہرست ہیں اور ان ممالک میں بعض تھنک ٹھینک دہشت گردی کی ذہنیت کی پروان کے ذمہ دار خود سعودی عرب کو گردانتے ہیں جس روز سعودی عرب میں اتحاد کا تشکیل ہونے جارہا تھا امریکہ سے پروفیسر مقتدرہ خان نے بی بی سی سے گفتگوکرتے ہوئے تجزیہ کیا کہ ’’ میں حیران ہوں کہ اپنی ہئیت اور قسم میں یہ وہ واحد اتحاد ہے جسکے مقاصد نہ تومتعین ہیں اور نہ ہی واضح ‘ ان کا کہناتھا اگر وہ کسی ریاست کی طرف سے نمائندہ ہوتے تو وہ اجلاس میں پہلا سوال یہ کرتے کہ اس اتحاد کے مقاصد کیا ہیں ؟ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس اتحاد کے مقاصد متعین اور واضح نہیں ہیں ۔( پاکستانی وزارت خارجہ نے دوسرے دن اس اتحاد میں شامل ہونے کا عندیہ دیا لیکن بی بی سی کے مطابق ریاض میں منعقدہ اجلاس میں پاکستانی نمائندے شریک رہے ) بہر حال عقل اس منطق کو قبول کرنے سے قاصر ہے کہ مقاصد و اغراض سرے سے موجود ہی نہ ہوں ۔جب موجود ہیں تو واضح کیوں نہیں ؟ یہ سوال اہم ہے ؟ واضح اس لئے نہیں ہیں کہ چھپائے جارہے ہیں اس سے یہ بات نکل آتی ہے کہ جو مقاصد نیک اور صالح ہوں انکو چھپانے کی کیا ضرورت ؟ دوسری جانب جب چھپائے جارہے ہوں تو یہ بات صادق ہے کہ وہ اغراض و مقاصد نیک اور صالح نہیں ہیں ورنہ 16 دسمبر کی رات سیکریٹری خارجہ کے سعودی عسکری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کی کیا توجیہہ بنتی ہے اور پھر اچانک شام کے مسئلے کے معاملے میں بشارالاسد کی حمایت کرنا عالمی رائے کو کیا تاثر دیتا ہے( اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی کتنی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ طے کی جاتی ہے ؟) عالمی نقشے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو زیادہ تر اسلامی ممالک خوددہشت گردی کے شکار نظر آتے ہیں سعودی عسکری اتحاد کے پیچھے صرف دو کردار نظر آتے ہیں سعودی عرب اور خلیجی سنی سلطنتیں جبکہ محرک بھی دو ہی ہیں ایران اور شام۔اتحاد میں شامل ممالک کی داخلی معاشی اور سیاسی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں بنگلہ دیش پاکستان سمیت سوڈان ،نائیجریا ،جارڈن اور دیگر سعودی اور خلیجی ممالک کے تیل کے احسان ‘‘ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی طرف سے اپنا نام شامل ہونے پر حیرانگی ظاہر کرنا ازخود اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کافی ممالک کو شامل کرنے کے لئے انکی رضامندی جاننے کی بھی زحمت گوارانہ کی گئی اس پس منظر میں اپنے اقتدار اعلٰی کے طورپر مملکت پاکستان کو اس عسکری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دینا چاہئے تھا لیکن ایک دفعہ میڈم صائمہ نے کہا تھا کہ وہ سید نور کے احسانوں تلے اس قدر دبی ہوئی ہے کہ اسکی کسی بات کا انکار نہیں کرسکتی ۔اگر بات انکار اور احسان کے درمیان کی ہوتی تو اتنی بڑی بات نہ ہوتی ویسے بھی میرے وطن میں ایک کٹورے پانی کی قیمت سوسال وفا ہے ۔لیکن اگر سعودی کے روایتی تاریخی اور مسلکی حریف ایران کے تناظر میں اس ملٹری اتحاد کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان اس اتحاد سے مستفید ہونے کے بجائے مستقبل میں نقصان کا سودا کررہاہے ایک طرف تو پوری دنیا میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کے متعلق پاکستان کا امیج خراب ہے مشرقی سرحد اور اب اگر مغربی سرحد پر بھی صورتحال اس طرح خراب رہی تو پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا امیج کسی بھی طرح بہتر کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ،برادر ، دوست ،ہمدرد اور اسلامی ملک ہے جب بھی پاکستان اندرونی طور پر خلفشار کا ر شکار رہا ایران نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ہے اس وقت سعودی عرب ایران دشمنی ( مسلکی بنیاد پر ) میں اسرائیل سے بازی لے جانے کی دوڑ میں ہے لیکن کیا پاکستان کا اس دوڑ میں سعودی عرب کا ساتھ دینا خارجہ پالیسی کاحصہ ہے ؟ یا ہاتھیوں کی جنگ میں ایک دفعہ پھر چیونٹی کی موت آنی ہے؟ سید نور کے احسانات ’’ چکاؤ‘‘ کے دوڑ میں کہیں ہماری مغربی سرحد اور عالمی سطح پر ہمارا امیج مزید خراب تر نہ ہو ۔اس سے پہلے نواز حکومت کی سعودی عرب کی طرف سے 200ارب ڈالر کے تحفے نے نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ ایران اور دنیا میں شیعہ مسلک کے حامیوں کے درمیان بھی مملکت خدادادکے امیج کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ تحفے کے ایک مہینے کے اندر ہی چابہار اور زاہدان میں سیاہ داں پر حملے اور انکے اغواکے الزامات بھی ریاست پر لگائے گئے اب اس اتحاد میں شامل ہونے کے بعد اگر سعودی عرب شیعہ دشمنی میں اپنی سرحدات سے باہر نکل آیا تو پاکستان عرب ملٹری اتحاد میں سعودی عرب کے ساتھ کس سرحد پر کھڑا ہوگا؟ پاکستان امریکہ کے ساتھ ملکر شمالی سرحد اور چین کے ساتھ ملکر مشرقی سرحد پر تجربات کرچکا ہے اگر ایسا کوئی ملٹری معاملہ نہ بھی ہوا تو ایران اس بغض میں انڈیا سے دوستی بڑھائے گا پھر چاہ بہار ڈیپ سی پورٹ پاک چائنا کوریڈور کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے اس کو ریڈور کی ناکامی (سیندک کے ذخائر ختم ہوچکے صرف ریکوڈک باقی ہے) چائنا کے 2020میں عالمی سیاسی افق پر چھا جانے کے بعد اسکی مفادات یہی رہیں گے کہ نہیں یہ وہ سوالات ہیں جنکا طے کرنا آج کے مقتدرہ کی ذمہ داری ہے جبکہ ’’تاریخ کا سبق صرف یہی ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ‘‘۔