|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2016

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والی اقوام و طبقات کیلیے اپنی ماں سے سیکھنے والی عظیم مادری زبان اتنی حسین, جمیل و شائستہ اور میٹھی ہیں جیسا کہ شہد ،اور اس کے متبادل دنیا میں اور کوئی شے ہی نہ ہو.کیونکہ یہ وہ زبان ہے جس سے انسان بولناسیکھتاہے ۔اخلاق و اخلاص,تہذیب و تمدن,علم و ادب اور انسانی اقدار بالخصوص قدرت کے کر شمے سمجھنے کے قابل بن کراسے اپنے شیرین اور میٹھے میٹھے لفظوں میں بیان کرنے کے لائق بن جاتے ہیں.21فروری جو مادری زبانوں کا عالمی دن ہے.اس دن کو دنیا بھرکے باشعور اور تعلیم یافتہ مکتبہ فکر, ادیب,شعراء ,صحافی,لکھاری,اور ادبی حلقے ,مزدور یونین,طلباء تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں خصوصی طور پر کانفرینسس اور پروگرامز کا انعقاد کرکے مناتے ہوئے مادری و قومی زبانوں سے اپنی سچی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں. اس موقع پر مجھے اپنے شیریں مادری زبانیں بلوچی,براہوی اور کیھترانی یاد آرہے ہیں کیو نکہ یہ وہ زبانیں ہیں جسے عام طور پر میرے دھرتی پر بسنے والی بلوچ قوم صدیوں سے بولتاآرہا ہے جو کہ سینہ بہ سینہ ,نسل در نسل, آباو اجداد سے وراثتی طور پر ہمیں منتقل ہوئے ہیں.تاہم دنیا میں بعض زبانیں ایسے ہیں جس پر افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے حوالے سے کام نہیں ہواہے جن کا کوئی واضح رسم الخط بھی نہیں.جو مستقبل قریب میں اپنے وجود کھو بیھٹنے کی شدید خطرات سے دوچار ہیں۔عموما اگر دیکھا جائے تو قومی و مادری زبانیں کسی قوم کی قومی شناخت اور پہچان ہو تی ہیں.ان کے بنیادی الفاظ جو کہ اکثر دیہی علاقوں میں بولے جاتے ہیں جو کہ تحریری شکل میں تا ریخ کا حصہ بنے بغیر رفتہ رفتہ وہ شہری علاقوں میں دیگر زبانوں کے کثرت استعمال یا کہ غلبہ یا وہ اشیاء جن کا استعمال دیہی علاقوں میں بکثرت عام ہیں جبکہ دوسری جانب شہروں میں جن کا استعمال جدت کی وجہ سے ترک ہوچکا ہے جو کسی قوم کی زبان و ثقافت کو بنیاد فراہم کرتی ہیں.جنہیں کھو بیھٹنا اپنے ہی قومی شناخت کھو بیھٹنے کی مترادف ہے جو خود استحصالی کے زمرے میں آتا ہے. استحصال صرف یہ نہیں کہ غاصب آکر کسی قوم پر شب خون مار کر اسے زیر تسلط کیا جائے بلکہ سب سے بڑی استحصال یہ ہے کہ کوئی قوم علم و ادب اور تحقیق و تخلیق کے عمل کو خود کے لیے تھکان سمجھ کر اس بنیادی مراحلے سے غافل ہو جائے اور اپنی قومی شناخت اپنی شرین زبانین اور ثقافت کے تحفظ کے لیے کچھ کر نہ سکے.جو کہ کسی قوم کے لیے کسی بھی المیے سے کم نہیں اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار کر از خود اپنے ہی قومی استحصال کے مترادف ہے.مادری زبانوں کا عالمی دن بلوچ قوم کے تعلیم یا فتہ اور با شعور مکتبہ فکر سے یہ تقا ضہ کرتاہے کہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا.اور اپنے علمی و ادبی, تحقیقی و تخلیقی استعداد کار کو بڑھا نا ہوگا.خصوصی طور پر ادیب و شاعر اور لکھاری بالخصوص ادبی تنظیمیں،طلباء تنظیمیں،سیاسی جماعتوں کو اپنے ذمہ داریوں کا احساس کرکے اپنے قومی و مادری بانوں کے تحفظ کے لیے کردار کو ادا کر نا ہوگا.اور خطے میں عام طور پر بولنے و لکھنے والا کو ئی مشا بہ ،یکساں رسم الخط باہمی مشاورت اور متفقہ اتفاق رائے سے منتخب کرنا ہو گا.جو ہمارے بزرگوں اور بچوں کیلئیے پڑھنے اور لکھنے میں آسان ہواور جس سے استفادہ کرکے ہم اپنی زبانوں کو دنیا کے دیگر زبانوں کے مقابلے میں لا کھڑا کرسکیں اس کے لیے ہمیں اپنے مادری زبانوں کو نصابی تعلیم کا حصہ بنانا ہوگاکیونکہ مادری زبانوں میں نظام تعلیم رائج کیے بغیر ہما رے معاشرہ کسی بھی صورت تر قی نہیں کر سکتانہ ہی ہم خوشحال ہو سکتے ہیں اس کے لیے بلوچ قوم کے تمام مکتبہ فکر کو اپنے ذمہ دارانہ کردار کو نیک نیتی, دیانتدارانہ اور ایمانداری و مخلصی کے ساتھ ادا کر نا ہوگاتاکہ مجموعی طور پر بحیثیت قوم ہم اپنا منزل مقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور اپنے وجود کو برقرار رکھ سکیں۔