|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2016

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق مادری زبان بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیئے سب سے اچھی زبان ہے۔اور یہ کہ اس سے بچوں میں تحقیقی اور تخلیقی صلا حیتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔مادری زبان کی تعلیم سے بچے کے پاس اپنی زبان کے علم کا ایک ذخیرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اس لیے اسکول میں بوریت کی بجائے بچہ خوشی محسوس کرتا ہے۔اپنی زبان میں تعلیم سے اسکے ذہن پر کم بوجھ پڑتا ہے اور بچوں کے سکول چھوڑ نے کی شرح میں بھی حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آتی ہے۔یو نیسکو کے مطابق آج دنیا میں130ملین سے زیادہ بچے جو اسکول سے باہر ہیں ، مادری زبان انکی تعلیم تک رسائی کی بنیادی حکمت عملی ہے۔اس کے برخلاف جب بچے کو اجنبی زبان میں پڑھنے پر مجبور کیا جاتاہے تو اسکے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھر تا ہے کہ آخر میری زبان میں مجھے کیوں نہیں پڑھایا جارہا؟ پھر وہ سمجھتاہے شایداسکی زبان کمتر ہے، اسطرح وہ دھیرے دھیرے اپنے آپ، اپنی ثقافت اور شناخت کو کمتر سمجھنے لگتا ہے۔یہ سوچ اسے اپنی وجود سے بیگا نہ بنا دیتی ہے اور ساری عمر اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکتا پھرتاہے ،جو ایک قومی المیہ سے کم نہیں، آ ج یہی کچھ ہم ملک میں مذہبی جنو نیت کی صورت میں ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک بار برطا نیہ کے وزیر تعلیم پاکستان آ ئے اسے چند گرائمر سکولوں کامعا ئنہ کرایا گیا۔تاثرات پوچھنے پر اسکا کہنا تھا’’اگر میں برطانیہ پہنچ کریہ مشورہ دوں کہ بچوں کودوسری زبان میں تعلیم دی جائے تو مجھے یقیناًپاگل جان کرہسپتال میں داخل کردیا جائیگا۔‘‘مادر ی زبان میں تعلیم کے بارے یونیسکو کہتی ہے ’’برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی انکی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔انکی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔اس نتیجہ پر ہر کہیں عمل ہورہا ہے اگر چہ ہم اب بھی ایسی حکومتوں کے بارے میں سنتے ہیں جو چھوٹے بچوں پر اجنبی زبان تھوپنے پر اسرار کرتے ہیں،وہ ایسا یا تو غلطی سے جدیدیت کی خاطر کر رہے ہوتے ہیںیا سماجی طورپر حاوی گروہ کی زبان کو فو قیت دینے کی خاطر۔‘‘(Years of research have shown that children who begin their education in their mother tongue make a better start and continue to perform better than those for home school starts with a new languege. This conclution is now widely implemented, although we still hear of Governments that insist on imposing a foreign languege of instruction on young children, either in a mistaken attempt at modernity or to express the pre-eminence of a social dominent group.UNESCO.) 21فروری2016 ؁کے ڈان اخبار(کراچی )میں امین احمدنے ’’مادری زبان کے عالمی دن‘‘ کی منا سبت سے یونیسکو کے جاری کردہ پا لیسی دستاویز(Policy paper)کی رپور ٹنگ کی، جس کے مطابق، ’’ کثیر النسلی پاکستان میں جہاں سماجی اور ثقافتی نابرابری ایک مسئلہ ہے،سرکاری اسکولوں میں صرف مقتدرہ (Dominent) اردو زبان کا استعمال، جسکے بولنے والوں کی تعداد 8فیصد سے بھی کم ہے، متواترسیاسی تناؤ کا سبب بن رہی ہے۔اس سے پہلے بھی اردو کی فو قیت کے بنا بنگلہ دیش کے تحریک کی بنیاد پڑی۔رپورٹ کے مطابق زبان دو دھاری تلوار ہوتی ہے،ایک جانب وہ کسی نسلی گروہ کے سماجی بندھنوں کو مضبوط کرتی ہے اور اسے محب وطن بنا تی ہے،دوسری جانب وہ ایک دوسری نسلی گروہ کی محرومی اور بیگانگی کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔دستا ویز میں ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں تعلیم کی تجویز دی گئی تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا وہ بھول نہ جائے۔‘‘ مادری زبان میں تعلیم کے بغیر اس ڈیجیٹل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ چاروں جانب زبانوں اور ثقافتوں کا یلغار جاری ہے ،کسی زبان اور اسکی ثقافت کازندہ رہنا محال ہے۔ ایک زبان جیسے بلوچی میں صرف کتابیں لکھنے اور چھاپنے سے جبکہ پڑھنے والے نہ ہوں اور اسکے بولنے والوں کی تعداد کم اور بکھری ہوئی ہو اسے نہیں بچایا جاسکتا۔ بلو چستان میں بولی جانے والی زبانوں کو بچانے کاواحد ذریعہ انہیں تعلیمی زبان قرار دینے میں ہے۔معلوم نہیں یہ مسئلہ ہربار کیوں اٹک جا تا ہے حالانکہ آئین میں اسکی گنجائش موجود ہے اورصوبہ سندھ میں اس پر مکمل عمل ہورہاہے۔آج بلوچستان میں شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔