|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2016

بلوچستان میں اگر ڈرامے اور ڈرامہ نگاری پر بات کی جائے تو ایک نام عموماً زبان پر آہی جاتا ہے وہ نام ہے ’’ اے ڈی بلوچ‘‘ ۔ بلوچستان میں جہاں ڈرامہ نگاری کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی وقت لگا۔ وہیں اس شعبے میں اے ڈی بلوچ کی کردار کو سراہا بغیر رہا نہیں جا سکتے۔ انہوں نے نہ صرف ڈرامہ نویسی پر کام کیا۔ بلکہ ضرورت محسوس کرتے ہوئے اسکے ہر صنف پر کام کیا چاہے وہ ایکٹنگ ہو پروڈکشن، ڈائریکٹنگ ہر جگہ اپنا کردار نبھایا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بلوچستان میں ٹی وی اپنا لوہا منوا نہیں چکا تھا۔ انہوں نے بطور رائیٹر ریڈیو پاکستان میں کام کرنا شروع کیا۔ ریڈیو پاکستان میں اسکے لکھے گئے ڈرامے بہت زیادہ پسند کیے جانے لگا۔ پھر جب پی ٹی وی بولان نے اپنی آنکھیں اس دھرتی میں کھولیں۔ تو ٹیلیویژن کو افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی۔ ڈرامہ نگار تھے ہی نہیں۔ چونکہ اس وقت عطا شاد ایک نام ہوا کرتے تھے اور ایک بنیادی اکائی بھی۔ انہیں اے ڈی بلوچ میں ایک قدرتی صلاحیت نظر آگئی انہوں نے اے ڈی بلوچ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسکرین پر لایا۔ اے ڈی بلوچ جو کہ خود کو عطا شاد کا شاگرد مانتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ شروع میں جب میں نے ریڈیو کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ تو ایک دن عطاشاد میرے پاس چل کر آئے۔ اور کہا کہ آپکو ٹی وی کے لئے لکھنا ہے اور وہ بھی بلوچی میں۔ تو میں کہا کرتا تھا کہ میری بلوچی اتنی اچھی نہیں لیکن وہ اس قدر شفقت سے پیش آئے کہ مجھے ٹی وی کی طرف جانا پڑا‘‘۔ اے ڈی بلوچ نے جو سب سے پہلا ٹی وی ڈرامہ براہوئی زبان میں’’ ریک نا ماڑی‘‘ لکھا جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ہر ایک کو ایسا محسوس ہونے لگے کہ یہ انکی زندگی پر بننے والی ڈرامہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ڈرامے کے حوالے سے بے شمار خطوط آتے تھے ان سے بے حد حوصلہ افزائی ملتی تھی۔ بلوچی زبان میں جو انہوں نے پہلا ڈرامہ لکھا وہ تھا ’’ مہمان‘‘ ۔ اس ڈرامے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ’’ ڈرامہ سیریل جب پی ٹی وی پر پیش کیا جانے لگا تو ہر قسط کے نشر ہونے کے بعد عطا شاد میرے پاس آتے تھے۔ اور میری تعریف کرتے تھے حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ اس میں کتنی غلطیاں ہیں۔ لیکن وہ مجھے حوصلہ دینے کے لئے میرے پاس آتے تھے۔ اس سے مجھے بہت زیادہ حوصلہ ملتا تھاتو ساتھ میں شرمندگی بھی کہ اتنا بڑا شخص خود چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اسے کہا کرتا تھا کہ سر آپ مجھے بلا لیتے تو جواب میں کہتے۔ نہیں مجھے آپکے پاس آنا ہے اور جو کچھ آپ اس زبان کے لئے کر رہے ہو۔ اسکی قیمت اسکے سوا میں ادا کر نہیں سکتا کہ میں خود آپکے پاس چل کر آجاؤں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد انہوں نے ایک سال تک خاموشی اختیار کی تو عطا شاد ایک مرتبہ پھر انکے پاس آئے۔ اور انہوں نے مجھے خوب ڈانٹا۔ پھر میں نے تیسرا ڈرامہ ’’ آروس‘‘ لکھا۔ اے ڈی بلوچ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی بے حد صلاحیت موجود ہے اس نے کام کے ذریعے اپنے ناقدین کا منہ بند کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی حوصلہ شکنی جیسی باتیں سننی بھی پڑتی ہیں اور یہی چیزیں آگے لے جانے کا باعث بھی ہیں۔ وہ ان الفاظ کو اپنے لئے ہمت کا ذریعہ قرار دیتا تھاتو کبھی کبھار بددل ہوکر کام چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتا تھا لیکن شفیق استادوں عطاشاد، ایوب بلوچ، عبدالکریم بلوچ اور دوستوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے اسے اس فیلڈ سے جوڑ کے رکھا۔ اے ڈی بلوچ کو 8زبانوں پر عبور حاصل ہے انہوں نے نہ صرف بلوچی، براہوئی بلکہ سندھی اور پشتو ڈراموں میں بھی کام کیا۔ پشتو ڈراموں پر اسے ایوارڈ بھی ملے۔ وہ اپنی کامیابیوں کو اپنی والدہ کے سر باندھتے ہیں جنہوں نے اسکی نہ صرف رہنمائی کی بلکہ ڈھارس بھی بندھائی۔ وہ اب تک 150سے زائد ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹر ڈرامے کر چکے ہیں۔ خود انہوں نے ’’سنگت‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کا آغاز کیا۔ اسکے حوالے سے وہ کہتے ہیں۔’’ تھیٹر کا خیال اچانک آیا۔ تو ایوب بلوچ نے اسکا نام ’’ سنگت رکھا‘‘ جسکا باقاعدہ آغاز ہم 5دوستوں نے ملکر کیا۔ بلوچستان کی سطح پر جو سب سے پہلا تھیٹر ڈرامہ ہم نے اس فورم کے ذریعے کیا۔ وہ تھا’’ جان محمد بی اے گولڈ میڈلسٹ‘‘ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی تھی۔ جس کی ماں نے مزدوری کرکے اپنے بچے کو پڑھا یاتھا یہی بچہ جب گولڈ میڈل جیتا ہے تو آگے چل کر اسے روزگار کے ذرائع میسر نہیں آتے‘‘ یہ حقیقت پر مبنی کہانی تھی جسے ڈرامے کے طور پر پیش کیا گیاجسے بے حد سراہا گیا‘‘۔ انکا شکوہ ہے کہ’’ اول تو یہ کہ ہم کام کرنا نہیں چاہتے اگر کوئی دوسرا اسے اپنے سر لے تو اس پر تنقید پہ تنقید۔ بلوچستان میں ڈرامے لکھنے والے بہت کم ہیں بلوچی زبان کے رائٹر ہیں ہی نہیں وہی رائٹر جو براہوی زبان میں لکھتے ہیں ان سے بلوچی ڈرامے لکھنے کا کام کیا جاتا ہے۔البتہ پی ٹی وی سے وابسطہ ظفر معراج، طاہر رئیسانی، علی مینگل، خدائیداد گل اچھا لکھتے ہیں۔‘‘۔ وہ سمجھتے ہیں اس فیلڈ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہوجاتا ہے جب آپ چیزوں کو جنوں کی حد تک سوچیں پھر اس پر کاربند رہیں۔’’ بلوچستان خاص کر مکران بیلٹ میں ٹیلنٹ بے پناہ موجود ہے۔ کبھی کبھار ہمیں لیاری سے خوشگوار چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن محدود پیمانے پر۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ گوادر، کیچ، پسنی، اورماڈہ کے نوجوان کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہاں مواقع موجود نہیں اور وہ یہاں آ نہیں سکتے جو کہ ایک خلا ہے۔ جسے پر کرنا ہے‘‘۔ ’’ پی ٹی وی کے دروازے نوجوانوں کے لئے کھلے ہیں وہ آکر کام کریں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم آکر ہی سینیئر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ آکر کام کریں سینیئرز سے سیکھیں اپنا کردار ادا کریں۔ تب ایک بات بنے گی‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو اس فیلڈ میں کام کرنے کے لئے چھوڑا نہیں جاتا۔ بلوچی زبان میں بننے والی ڈراموں ہمیں ان خواتین کو منتخب کرنا پڑتا ہے ۔ جو بلوچی زبان سے نابلد ہیں۔ ان کو بلوچی زبان سکھا کر ڈرامے بنائے جاتے ہیں جو کہ ایک وقت طلب کام ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ڈرامہ ایک الگ موضوع ہے۔ آپ اسے مضمون، افسانہ، ناول کے طور پر نہیں لے سکتے۔ ڈرامے کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں۔ ڈرامہ نگار کو ڈرامے کے ہر صنف کا پتہ ہونا چاہئے کہ وہ ڈرامے کو کس طرز پر لکھ رہا ہے۔ ہمارے ایسے بھی ڈرامہ نگار ہیں انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ جو اسکرپٹ لکھ رہے ہیں وہ آیا انڈور سین کے لئے ہے یا آؤٹ ڈور کے لئے۔ اے ڈی بلوچ بلوچستانی مسائل پر ڈرامے لکھنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن انہیں سرکاری ٹیلی ویژن کی پالیسی کا خیال رکھنا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی اپنی بات کر جاتے ہیں انکی دو کتابیں زیرِ تحریر ہیں۔ یہ دونوں کتابیں انکی تجربات، مشاہدات اور ڈرامہ نگاری کے مندرجات پر مشتعمل ہیں جو کہ ڈرامہ نگاری کے طالبعلموں کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اے ڈی بلوچ سے جب انکے ایوارڈز کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں۔ ’’ زندگی میں ایوارڈز کی کمی تو نہیں پر میرے لئے میرے ایوارڈز میرے شاگرد ہیں۔ جنہوں نے مجھ سے سیکھا اور وہ آگے چل کر اس شعبے کے لئے فعال کردار ادا کریں گے‘‘ ۔ انہوں نے خود اسلام آباد میں ڈرامہ نگاری کی ٹریننگ لی ہے۔ جو کہ اسکی زندگی میں بہت کام آئی ہے۔ میں نے یہی سوال ان سے پوچھا کہ بلوچستان میں ڈرامہ نگاری کے لئے باقاعدہ درسگاہ تو موجود نہیں تو نوجوان کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ ’’ درسگاہیں ہونے چاہئیں خاص کر بلوچستان یونیورسٹی میں ایک شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ پاکستانی دیگر صوبوں کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں جائیں تو وہاں باقاعدہ پرائیوٹ شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں لیکن یہاں اسکا فقدان ہے۔ البتہ پی ٹی وی ایک ایسا ادارہ ہے جو کام کے ساتھ ساتھ درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ جتنے بھی ایکٹرز، ڈائریکٹرز، پروڈیوسر دیکھ رہے ہیں انہوں نے یہیں سے سیکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں کام کا جذبہ ہونا چاہئے۔ انہیں آگے آنا چاہئے‘‘۔ میرا اگلا سوال ان سے یہ تھا کہ ڈراموں کے ذریعے کلچر کو کتنا پروموٹ کیا جا رہا ہے اسکے جواب میں وہ کہتے ہیں ’’ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کلچر پر ابھی تک کام ہوا ہی نہیں ہے۔ اسے ہماری کمزوری سمجھیں یا کچھ اور۔ کلچر کو آپ اس وقت پروموٹ کر سکتے ہیں جب آپ کو آزاد چھوڑ دیا جائے آپ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جا کر وہاں کی ثقافت کو دیکھیں اس پر کام کریں مگر ویسے نہیں ہو پا رہا‘‘۔ بچوں پر ڈرامے کیوں نہیں بنائے جاتے۔ بچے اپنے مسائل سے اتنے آشنا نہیں ہیں؟۔اس سوال کے جواب میں اے ڈی بلوچ کا کہنا ہے ’’میں نے یونیسیف کے تعاون سے بچوں پر بننے والی 13ڈراموں پر کام کیا تھا جن میں بچوں کی سماجی زندگی، تعلیم، صحت ، تربیت کو نمایاں پیش کیا۔ دوسری بات یہ کہ بچوں کا سبجیکٹ بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس پر باریک بینی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بچوں پر بننے والی ڈراموں میں بچوں کو بطور کردار پیش کیا جاتا ہے۔ پھر بچے کو گرسکھانا اور انہیں اس فیلڈ میں مہارت دلانا کافی دقت طلب کام ہے البتہ کام تو ضرور کرنا ہے‘‘۔ اے ڈی بلوچ نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ نام کمایا۔ عطاشاد کے اس شاگرد کو ایک اور عطاشاد کا انتظار ہے جو بلوچی زبان، ثقافت اور ڈراموں کے لئے کئی اور اے ڈی پیدا کرے ۔