|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2016

ناقدین بر ملا کہتے ہیں کہ نواز شریف اس ملک کے بادشاہ ہیں منتخب عوامی نمائندے اور وزیراعظم نہیں ہیں کم سے کم ان کی طرز حکمرانی سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ نواز شریف پاکستان کے بادشاہ ہیں وزیراعظم نہیں وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نہیں جاتے ملک میں خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ غیر ممالک کے دوروں پر رہتے ہیں گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے 64غیر ملکی دورے کیے ان کے دورے شاہانہ ہوتے ہیں اور وہ سعودی بادشاہ کی نقالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ نواز شریف نے غیر ملکی دوروں پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے غیر ملکی دوروں کا واحد مقصد اپنی شان و شوکت کو بڑھانا اور نمائش کرنا مقصود ہے ۔ شاذو نادر ہی ان دورو ں میں ملکی معاملات پر توجہ ہوتی ہے انگریزی کے ایک بڑے روزنامہ میں ایک حیرت انگیز خبر چھپی کہ سری لنکا کے دورے کے دوران انہوں نے سری لنکا کے صدر کو یہ پیش کش کی کہ وہ سری لنکا میں شکر کا کاخارنہ لگا چاہتے ہیں اور سری لنکا کے صدر نے اس پیش کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ گویا وہ بیرونی ممالک کے دوروں کو اپنی بزنس کو فروغ دینے کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں ۔عوامی نمائندہ عوام کا خادم ہوتاہے وہ سیاست کو عبادت سمجھتا ہے اور دن رات عبادت کرتاہے مگر نواز شریف کے طرز عمل میں اس قسم کی سیاست نظر نہیں آتی بلکہ ان کے طرز عمل اور ان کے قریبی حلقوں سے تاثر عام طورپر ملتا ہے کہ وہ سیاست کو صرف اور صرف تجارت سمجھتے ہیں ، وہ اور ان کے اکثر رفقاء تجارت ہی کرتے رہتے ہیں ورنہ سیاست دان قومی اسمبلی میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے جبکہ موصوف مہینوں تک وفاقی کابینہ کا اجلاس بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، صرف احکامات کے ذریعے حکمرانی کرتے رہتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے سات ماہ بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا اور اپنے معاونین جو کابینہ میں موجود ہیں ان سے مشورہ کیا کہ پانامہ لیکس کا کیا کیا جائے اور اس نئی صورت حال سے کس طرح نمٹا جائے۔ اس طرح تین سال بعد ان کو قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کا خیال آیا اور فرداً فرداً سب کوبلانا شروع کیا، مشکل وقت میں ان کو اپنے ساتھی یاد آئے ۔ حکمرانی کے ترنگ میں ان سب کو فراموش کر چکے تھے اور ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے ۔اس کی زبردست مثالیں مسلم لیگ سندھ کے رہنماؤں کی ہیں جناب غوث علی شاہ مسلم لیگ کے ایک اہم رکن تھے مشکل ترین وقت میں نواز شریف کے ساتھی تھے۔ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے ان کو نواز شریف سے شکایات تھیں مجبوراً ان کو مسلم لیگ چھوڑنا پڑا ۔ اس طرح ممتاز بھٹو اور جتوئی دونوں سندھ کے اہم رہنما ہیں اور سابق وزیراعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں انہوں نے مسلم لیگ سے صرف اس وجہ سے استعفیٰ دیا کہ ان کو نظر انداز اس حد تک کیا گیاکہ نواز شریف ان کے فون سالوں تک نہیں سنتے تھے۔ اس کے مقابلے میں کراچی یا دوسرے شہر سے کوئی ٹھگ تاجر فون کرتا تو دیر تک ان سے باتیں کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے سندھ میں اپنی مسلم لیگ خود ہی غرق کردی۔بڑے بڑے رہنماء پارٹی چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ نواز شریف کودوران وزارت عظمیٰ ان کی ضرورت نہیں تھی البتہ انہوں نے ملک کی صدارت ایسے شخص کو دی جس کو کوئی نہیں جانتا تھا وہ صرف نواز شریف کا ذاتی خدمت گزار تھا، تو اس قسم کے طرز حکمرانی سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ملک میں کس معیار کی جمہوریت ہے ۔ وزیراعظم اداروں ، خصوصاً جمہوری اداروں ، قومی اسمبلی ، سینٹ اور وفاقی کابینہ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں دوسرے الفاظ میں موجود ہ حکومت کو اگر شخصی حکومت کہا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ملک میں جمہوریت نہیں ہے اور وزیراعظم اپنے آپ کو ان اداروں کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو ان تمام اداروں سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔