|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2016

میرا ضمیر کبھی کبھار ایسے جاگ جاتا ہے بس میں سمجھتا ہوں کہ میں ہی ہوں کوئی اور تو ہے ہی نہیں اس دنیا میں ۔۔ میں اپنے من ہی من میں سوچتا ہوں کہ میں بہت اچھا کر رہا ہوں۔ اس دنیا کے باقی جتنے بھی لوگ ہیں ان سے بڑھ کر کوئی غلیظ نہیں۔ پھر جو میرے جی میں آجائے میں دنیا والوں کے بارے کیا کیا نہیں بولوں کیا نہ سوچوں۔ یہ سوچ سوچ کر میرا پارہ 100کو کراس کر جائے پھر میرے جی میں جو کچھ آجائے میں کہتا ر ہوں۔ بس کسی کی شامت نہ آجائے وہ اسی وقت میرے سامنے آ نہ جائے میں اسے جیتے جی مار ڈالوں یا کہ اسکا سامنا کسی محفل میں نہ ہو کہ اسے سرے محفل میں بے عزت کروں۔ تو بس دنیا کو نگل ہی کیوں نہ لوں۔میرے سامنے اگر کسی کی اچھائی کی تعریف ہو رہی ہے تو میں کہوں گا۔۔ ارے فلانے کا بیٹا۔۔ اسکا والد وہ بدنام زمانہ شخص تھا جسکو اپنے ہی گھر میں پناہ نہ ملی تو بیٹا کیا تیر مارے گا۔ بس پھر میں اسکے بارے میں وہ رائے قائم کرتا چلوں کہ پوری دنیا اس کا گریبان ہی چاک کر ڈالے تب جا کر مجھے سکون آجائے کہ میرے دل کی مرادیں پوری ہو گئیں۔ میرا دوست کہتا ہے کہ میں اس تاک میں بیٹھتا ہوں کہ کوئی لکھ ڈالے اور میں اسکی تحریر میں غلطیاں نکالوں اور اس پر جملوں کی بوچھاڑ کردوں۔ پھر سوشل میڈیا پر اسکی عزت تک اتار دوں کہ پھر کبھی کہنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ میرا دوست کہتا ہے کہ وہ دن میں ایسی 100کے قریب مضامین پڑھتا ہے پھر ان کو خاک میں ملانے کے لئے اپنی شیطانی دماغ استعمال کرتا ہے۔ پھر بھوکے اور پیاسوں کی طرح اسے نچوڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ تب جا کر مجھے قرار آتا ہے کہ آج میں نے کسی کی عزت تو خاک میں ملا دی ورنہ بڑا بنا پھرتا ہے طرم خان۔میں اپنے دوست کے سامنے بارہا ہاتھ جوڑ چکا ہوں کہ ایسی حرکتوں سے باز آجا۔ میرا دوست کہتا ہے کہ میرا تو مشغلہ ہے اگر میں ایسا نہ کروں نہ مجھے دن کو سکون آتا ہے اور نہ رات کو آرام۔ ارے بھائی تم اپنے سکون کی تلاش کے لئے خود قلم کا استعمال کیوں نہیں کرتے بجائے دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کے۔ تو دوست بھی کافی دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہتا ہے کہ مجھے میرا مشغلہ ہی کافی ہے۔اب دوست کے ساتھ رہ رہ کر میری بھی طبیعت اس دوست جیسی ہو گئی ہے جو روزانہ دوسروں کی عزت خاک میں ملانے پر تلا ہو۔ اب مجھے بھی یہی محسوس ہونے لگا ہے کہ واقعی سب برے ہیں میرا ایک ہی دوست ہے وہ صحیح ہے۔ میں دوسست کو دن میں ایک دفعہ نہ دیکھوں تو مجھے قرار نہیں آتا اور دوست مجھے نہ دیکھے کیونکہ ہمارا ملن دوسروں کی پگڑی اچھالنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ شروع سے لیکر اب تک میری تحاریر اردو میں ہی ہوا کرتے ہیں۔ مجھے میرے کچھ دوست اپنی مادری زبان بلوچی میں لکھنے کا کہتے تھے تو میں انہیں کہتا تھا کہ بلوچی میں لکھتے ہوئے مجھ سے بے تحاشا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ پھر ہماری نیچر بھی ہے کہ اہم ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کرتے اور فتوے بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔ پھر بھی میری ہر تحریر کے بعد میرے دوستوں کی جانب سے مجھ پر طعنے بازیاں کسے جاتے تھے۔ خیر میں نے اللہ اللہ کرکے ایک اردو ناول کا بلوچی میں ترجمہ شروع کیا ۔ اب تقریبا 40صفحات کا ترجمہ کر چکا تھاکہ اچانک کسی دن ایک خاتون کی تحریر جس میں اس نے سروز کو سارنگی کہہ دیا تھا میرے انہی دوستوں میں سے کسی نے اسکی اس غلطی پر اسے صحافت کے شعبے سے خارج قرار دے دیا۔ اسکے بعد سے مجھے خدشہ لاحق ہوا ہے کہ اگر یہی کتاب جسکا ترجمہ میں بلوچی میں کررہاہوں کہیں مجھ پر فتویٰ صادر فرما نہ دے اسلئے جان کی امان پاتے ہوئے یہ سلسلہ روکنے کا سوچ رہا ہوں۔ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ کہیں زبان پر انجانے میں کوئی ایسی بات نہ آجائے کہ ملاؤں کی جانب سے فتویٰ نازل ہو جائے۔ اب توفتوے بازی کا شعبہ کافی وسیع ہو چکا ہے جس سے ہو اختلاف اسکے خلاف فتوے کا بازار گرم کردو۔ چاہے وہ فتویٰ کیوں نہ اسکی جان پر آجائے۔ بس یہ کہ فتویٰ آپ نے صادر کرنا ہے۔ اللہ بھلا کرے اس نادر و نایاب سوشل میڈیا کا جس نے ہر ایک کی رسائی آسان بنا دی۔ اب تو ہر ایک کو موقع مل ہی جاتا ہے تبصرے اور تکرار کا۔ بات کہاں سے شروع ہو جاتی ہے اور ختم ہوتے وقت موضوع کا کہیں عنصر باقی نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں ویسے بھی ضمیر فروشی اور غداری کا الزام اب بہت آسان سا لفظ بن چکا ہے پھر اسی کی آڑ میں فتویٰ دیکر کسی کی جان لینا اتنا ہی آسان کام۔ اب ہماری وہ نسل جو اپنے سینیئرز سے سیکھنے کا خواہاں ہے انہیں صبر و تحمل اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی بے برداشتی نے نسل در نسل تو تباہ کر دیئے ہیں۔ اب تو میں اپنے اندر چڑچڑاپن کو دیکھتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ جس معاشرے کی علاج کا بیڑا ہم لکھاریوں نے اٹھایا ہے پہلے ہم خود اپنا ذہنی علاج کرائیں تب جا کر ہم ایک مثبت معاشرہ کا خواب پورا کر پائیں گے ورنہ اس شورش زدہ ذہن اور پیدا کردہ عدم برداشت کی فضاء میں نہ جانے اور کتنے ذہنوں کو اجاڑنے کا کام کریں گے۔