|

وقتِ اشاعت :   May 11 – 2016

بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پر صحت اور تعلیم پر کم سے کم توجہ دی جاتی ہے ۔ زیادہ تر توجہ کے مستحق وہ شعبے ہیں جہاں پر افسروں کو کمیشن یا کک بیک وصول ہوتے ہیں بعض اسپتال بیرونی امداد یا بیرونی عطیات سے تعمیر ہوئے اس کا مقصد صرف مقامی لوگوں کو صحت اور علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کرنا تھا ۔ وہاں پر جدید آلات اور مشینری بھی نصب کی گئی تاکہ وہ تمام سہولیات مقامی افراد اور مقامی آبادی کو میسر ہو ۔ اسپتالوں کی عالی شان عمارتیں ان میں جدید آلات اور مشینری نصب ہیں مگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے ۔ وجہ صرف یہ ہے ڈاکٹر دوردراز علاقوں میں خدمات انجام دینے کو تیار نہیں وہ تمام ڈاکٹر حضرات جنہوں نے پسماندہ علاقوں کے رہائشی ہونے کے حوالے سے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ان پر غریب ترین صوبے نے کروڑوں روپے خرچ کیے تو آخر میں وہی ڈاکٹر اپنے ہی علاقوں اور اپنے ہی رشتہ داروں کا علاج کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ مرد اور خواتین ڈاکٹر سب کے سب کوئٹہ میں رہتے ہیں ساری سہولیات کوئٹہ شہر میں فراہم کی گئیں ۔ وہ ان سہولیات کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہر قیمت اور ہر حال میں کوئٹہ میں رہنا چاہتے ہیں ان بڑے بڑے اسپتالوں کو کمپوڈر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لوگ چلاتے ہیں ڈاکٹر نہیں ہیں ۔ دوسری جانب صوبائی اور وفاقی حکومت کی ستم ظریفی ہے کہ کوئٹہ شہر میں پانچ بہت بڑے بڑے اسپتال موجو دہیں اور یہاں پر مزید اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں اس کے لئے مختلف بہانے بنائے جارہے ہیں یہ دل کے مریضوں کا اسپتال ہے یہ مزدوروں کا اسپتال ہے ۔ اس طرح سے پانچ مزید بڑے اسپتال سرکاری خرچ پر تعمیر کیے جارہے ہیں جو ڈاکٹروں کے لئے کوئٹہ میں رہنے اور یہاں خدمات انجام دینے کا بڑا بہانہ ہاتھ آیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے اور بڑے اسپتال کوئٹہ میں تعمیر نہ کیے جائیں کیونکہ اس سے بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں رہنے والوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ البتہ افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین کا ضرور فائدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سب کوئٹہ کے قرب وجوار میں رہتے ہیں ۔ اس لئے جب کسی اسپتال میں آپ کا گزر ہو تو معلوم ہوگا وہاں اسی فیصد مریضوں کی تعداد افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجروں کی ہے ۔ حکومت اپنا اسی فیصد کا صحت کا بجٹ افغان تارکین وطن پر خرچ کررہی ہے اور اس سے مقامی لوگوں کا فائدہ کم ہوتا ہے اور وہ صحت کی سہولیات سے کم سے کم فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جو ایک جرم ہے اور نا قابل معافی جرم ہے ۔ ہم پہلے بھی ان کالموں میں یہ تجویز دے چکے ہیں کہ بلوچستان کے چھ ڈویژنوں میں صحت کے بڑے بڑے مراکز قائم کیے جائیں بلکہ میڈیکل کالج اسپتال بنائے جائیں تاکہ کم سے کم لوگ کوئٹہ کا رخ کریں مقامی آبادی کو لورالائی ، تربت، خضدار ، نوشکی ، سبی ، ڈیرہ مراد جمالی ان مقامات پر صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ گزشتہ حکومت نے تربت ، لورالائی اور خضدار میں میڈیکل کالج بنانے کا رسمی اعلان ضرور کیا تھا مگر اس پر تیز رفتاری سے کوئی کام نہیں ہورہا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر وہ اعلانات کیے گئے تھے ۔ان علاقوں میں موجود اسپتالوں میں توسیع دی جائے اور اس میں وہ تمام شعبہ جات کھولے جائیں جہاں پر تحقیق اور علاج دونوں ہوں تاکہ میڈیکل کالج کا طالب علم وہ تمام بنیادی علوم سے واقف ہو ۔ اس کے لئے بڑی رقم رکھی جائے تاکہ آئندہ چند سالوں میں صوبہ بھر میں چھ میڈیکل کالج قائم ہوں جہاں پر صحت کی تمام تر سہولیات فراہم ہوں اور کوئٹہ کی اجارہ داری ختم ہوجائے ۔ مقامی ڈاکٹروں کی یہ شکایت بھی دور ہوجائے کہ ان علاقوں میں سہولیات نہیں ہیں اس لئے وہ اپنے ہی لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنی مناسب روزی کما سکتے ہیں ۔