|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2016

اطلاعات ہیں کہ تاجروں اور صنعت کاروں پر مشتمل مسلم لیگ کی حکومت اس بار پھر تاجر دوست بجٹ بنانے کی تیاری کررہی ہے جس میں عوام کے بنیادی مفادات کو نظر انداز کیے جانے کا خطرہ ہے ۔ موجودہ سیاسی تناؤ کی صورت حال میں ایسا فیصلہ حکومت کے خلاف جائے گا کیونکہ ملک کے عوام حکمرانوں سے پہلے ہی ناخوش ہیں اوراگر ان کے جائز مفادات کو نقصان پہنچایاگیا تو ملک میں ناراضگی اور تناؤ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس لئے حکومت کے لئے لازم ہے کہ ضرورت کی تمام ضروری اشیاء کی قیمتوں کو مستحکم رکھے ۔ رمضان اور عید کے دوران تاجروں اور دیگر مفاد پرست عناصر کو لوٹ مار کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ رمضان میں ضروری اشیاء کی قیمتوں پر خصوصی نگاہ رکھی جائے ۔ کوشش یہ کی جائے کہ جن اشیاء پر سبسڈی دی جارہی ہے وہ ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک پہنچائی جائے ۔ بلوچستان کے عوام کو یہ دیرینہ شکایت ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز صرف کوئٹہ میں قائم ہیں اور یہ سہولت صرف ایک شہر کو مہیا کی گئی ہے پورا بلوچستان اس سے محروم ہے اورسبسڈی کا فائدہ بلوچستان کے عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے جس پر وفاقی حکومت کارروائی کرے ۔ ہمارا وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ،اراکین پارلیمان سے یہ گزارش ہے کہ وہ یہ معاملہ پارلیمان میں اٹھائیں تاکہ ایسے اسٹور صوبے کے دوردراز علاقوں میں قائم کیے جائیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ان میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نے ان تین سالوں کے دوران ستر ممالک کے غیر ملکی دورے کیے اور اربوں روپے ا س پر خرچ کیے ۔ اس کے برعکس خضدار جیسا اہم ترین اوربلوچستان کا دوسرا بڑا شہر قدرتی گیس سے محروم ہے ساتھ ہی گوادر جس سے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ یہ پاکستان کی قسمت بدل دے گا وہاں پر لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے ہمارے لاکھوں بچے اسکولوں سے محروم ہیں ۔ صحت کی سہولیات صرف کوئٹہ شہر تک محدود ہیں جس کو بعض مفاد پرست ڈاکٹروں نے لوٹ مار کا ہیڈ کوارٹر بنا رکھاہے ۔ اس لئے ضروری ہے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے عوام کو خصوصاً دور دراز علاقوں کے رہنے والوں کو بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں جو ملک کے کسی ترقی یافتہ علاقے کے لوگوں کو حاصل ہیں ۔بجٹ کا زیادہ حصہ عوام کی فلاح و بہبوود پر خرچ کیا جائے اور ساتھ ہی کرپشن کے خلاف زبردست کارروائی شروع کی جائے ۔ اور اس کا عمل آغازوہاں سے کیاجائے جہاں سے افسران اور بعض ایم پی اے حضرات اپنا ذاتی ترقیاتی فنڈ خرد برد کرتے ہیں سارا فنڈ عوام کے بجائے اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں ۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بجٹ کا نوے فیصد حصہ غیر ترقیاتی عمل پر خرچ کیاجائے ۔ انتظامیہ کے اخراجات کو کم سے کم کیاجائے اور زیادہ سے زیادہ فنڈز ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کیا جائے ۔ نئے مالی سال سے ایم پی اے ترقیاتی پروگرام کو روک دیا جائے اور اس کے بدلے میں سرکای شعبہ کا ترقیاتی پروگرام ، خصوصاً طویل مدتی ترقیاتی پروگرام شروع کیا جائے ۔اراکین اسمبلی صرف اور صرف قانون سازی کریں، معاشی اور انتظامی معاملات میں بالکل مداخلت نہ کریں صرف اسمبلی کے فلور پر ہر چیز پر بحث کریں اور اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ وزیر ہیں تو وہ کابینہ کے اجلاس میں تمام تجاویز دیں انتظامیہ کی تمام تر ذمہ داری وزیراعلیٰ اور سرکاری افسران پر چھوڑدی جائے تاکہ اچھی حکمرانی کی ایک مثال بلوچستان میں قائم ہو ۔