|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2016

بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی میں حکومت اور نوکر شاہی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ محکمہ تعلیم میں من پسند افراد کی تعیناتی اور اچھے افسران کو نکالنے کا عمل دہائیوں سے جاری ہے ۔ آج تک یہ رکنے کا نام نہیں لیتی ۔ سابق وزیراعلیٰ نے تھوڑی سے دلچسپی لی تھی تو ایک سال کے دوران امتحانات میں نقل کا رحجان کم ہوگیا تھا یعنی حکومت نے ذرا سی سختی کی تھی ان کے جانے کے بعد امتحانات کا جو حشر موجودہ سال میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ سرکاری اسکول اچھے تھے جو اچھی اور معیاری تعلیم 1960کی دہائی تک فراہم کررہے تھے ان سب کو تباہ کیا گیا چونکہ حکمران کرپٹ تھے انہوں نے کرپشن میں اضافہ کرنے کیلئے کرپٹ ترین افسران کا چناؤ کیا اور ان کو اپنے من پسند عہدوں پر تعینات کروادیا جس سے رہا سہا تعلیمی نظام تباہ ہوگیا ۔ اب اربوں روپے کی رقم ضائع ہورہی ہے اور اس سے مطولبہ نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں یعنی معیار تعلیم میں گرواٹ تیز رفتاری کے ساتھ ہورہی ہے ،اس پر ابھی تک بند نہیں باندھا جا سکا ۔ اس کا فائدہ نجی تعلیمی ادارے زبر دست طریقے سے اٹھا رہے ہیں ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کررہے ہیں تعلیمی ادارے ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور اربوں روپے معیاری تعلیم کے نام پر لوٹ رہے ہیں ان پر سخت قسم کی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کیلئے مخصوص قوانین بنائے جائیں ۔ انتہائی قابل افراد ان تعلیمی اداروں کا معائنہ کریں تاکہ معلوم ہو کہ وہ بچوں کے ساتھ فراڈ تو نہیں کررہے ہیں۔ ہم ابتداء سے صرف ایک تعلیمی نظام کے حامی رہے ہیں تعلیم کو ہرگز تجارت بنانے کی اجازت نہ دی جائے خصوصاً بلوچستان جیسے پسماندہ ترین علاقے میں لوٹ مار کی بالکل اجازت نہیں ہونی چائیے اس لئے سرکاری اسکولوں پر زیادہ توجہ دی جائے ان کو تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں بلکہ اسکول انسپیکٹرز کی بڑی ٹیم تشکیل دی جائے جو سارے سال بلوچستان بھر میں اسکولوں پر چھاپے ماریں بلکہ محکمہ تعلیم میں نئے اور مناسب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسکول انسپیکٹر ز کے طورپر بھرتی کیاجائے جس کا واحد مقصد معیار تعلیم کو بلند کرنا ، بھوت اسکولوں کا پتہ لگانا اور انکو بند کرنے کے علاوہ بھوت اساتذہ کا پتہ لگانے اور ان کو گرفتار کرکے سزا دلوانا بھی شامل ہو ۔ یہ کام پولیس ، ایف آئی اے نیب نہیں کرسکتیں یہ صرف تعلیم سے منسلک ایک ایماندار اور دیانت دار ٹیم ہی کر سکتی ہے ۔ صوبائی حکومت اس سال آنے والے بجٹ میں رقم مختص کرے تاکہ اسکول انسپیکٹرز کی آسامیاں بنائی جائیں اور ان کوصوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ضلعی کوٹے پر بھرتی کیاجائے ،ان کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ ہر ضلع میں یہ انسپیکٹرز حضرات اسکولوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور ان پر نظر سول سوسائٹی اور عوامی نمائندے رکھیں گے اس سے تعلیمی ماحول میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ ساتھ ہی موجود امتحانات کا نظام ختم کیاجائے تاکہ نقل کا خاتمہ ہو اور سمسٹر نظام قائم کیاجائے اور ہر ماہ طالب علم کا امتحان لیاجائے اور اہلیت کی بنیاد پر طلباء کو دوسرے کلاس میں ترقی دی جائے تاکہ نقل کی لعنت ختم ہوجائے اس کے ساتھ ہی رہائشی اسکولوں کا نظام بھی تیزی سے رائج کیاجائے تاکہ ہر بچہ حکومت کے خرچے پر کم سے کم میٹرک اور 12ویں جماعت تک ان رہائشی اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں ۔بہر حال ہر قیمت پر بلوچستان میں صرف ایک تعلیمی نظام ہو جس میں نجی اسکولوں یا مدرسوں کی گنجائش نہ ہو تمام سیاسی دکانیں بند کردی جائیں ۔