|

وقتِ اشاعت :   May 20 – 2016

پاکستان کے ایران کے تعلقات میں کسی حد تک سرد مہری نظر آرہی ہے ۔ خصوصاً بھارتی جاسوسی کی گرفتاری کے بعد بعض عناصر نے ایران کے خلاف منظم اندازمیں پروپیگنڈا مہم چلائی جیسا کہ ایران پاکستان کی ماتحت ریاست ہے اورایران کو بعض عناصر نے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ بھارت کی نہیں پاکستان کی حمایت کرے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایران سے تعلقات کسی حد تک سرد مہری کا شکار ہیں ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آئندہ چند روز میں سہ فریقی اجتماع تہران میں ہورہا ہے جس میں بھارتی وزیراعظم مودی کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی شریک ہوں گے اشرف غنی نے ایران جانے کافیصلہ کیا ہے جب بھارتی وزیراعظم تہران میں موجودہوں گے ان تین ممالک کو وسط ایشیاء کے بعض ممالک کی زبردست حمایت حاصل ہے وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں ۔ ایران ان ممالک کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کو تیار ہے اور اس نے چاہ بہار کی بندر گاہ کے دو برتھ بھارت کو دے دئیے ہیں جن کو صرف اور صرف بھارتی جہاز استعمال میں لائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وسط ایشیائی ممالک اور ایران وسیع پیمانے پر تجارتی تعلقات استوار کررہے ہیں ۔ ایران اس منصوبے کو تجارتی راہداری کا نام دیتا ہے اور وہ بھارت کووہ تمام سہولیات فراہم کررہا ہے جو اس کو وسط ایشیائی ممالک سے بڑے پیمانے پر تجارت کرنے پر ضرورت پڑے گی۔ اس پر بھارت چاہ بہار بندر گاہ کی ترقی پر 78کرو ڑڈالر خرچ کررہا ہے چاہ بہار کے آزاد صنعتی علاقے میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے ۔ اس میں کھاد کا ایک بڑا کارخانہ بھی شامل ہے جو ایران کے قدرتی گیس کو خام مال کے طورپر استعمال کرے گا اور اس کی تمام پیداوار کو بھارت خود خریدے گا اور اپنے ملک میں زرعی ترقی کے لیے استعمال میں لائے گا اس کے علاوہ بھارت چاہ بہار ، زاہدان ریلوے لائن بھی تعمیر کررہا ہے جس کے بعد چاہ بہار کی بندر گاہ دنیابھر کے ممالک کے ساتھ ریل کے ذریعے منسلک ہوجائے گی ۔ اس سہ فریقی کانفرنس میں معاشی تعاون کے بڑے بڑے منصوبے بھی زیر غور آئیں گے اور بعض معاہدوں پر ان تین ممالک کے رہنما دستخط بھی کریں گے ان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ، سڑکوں اور ریلوے لائن کی تعمیر کے علاوہ چاہ بہار کے صنعتی اور تجارتی علاقے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شامل ہے، حالیہ کشیدگی کے باعث افغانستان کے حکام نے یہ اعلان کیا ہے کہ تجارتی راہداری کیلئے وہ کراچی کے بجائے چاہ بہار کو استعمال کریں گے ۔ ایران بند رعباس کے ذریعے بعض ممالک کو تجارتی راہداری کی سہولیات فراہم کرتا رہا ہے مگر چاہ بہا بندر گاہ کی تعمیر اور اس کے فعال ہونے کے بعد سفر کا دورانیہ 14میل کم ہوگیا ہے ۔ بندر عباس سے وسطی ایشیائی ملک ترکمانستان کا راستہ 2800میل طویل تھا جبکہ چاہ بہار سے راستہ صرف 1400میل رہ جائے گا۔ ایران چاہ بہار کو خطے خصوصاً ایران بلوچستان کے علاوہ وسطی ایران کے لئے بھی استعمال میں لارہا ہے ۔ جس سے چاہ بہار کی فعالیت میں بھی زبردست اضافہ ہو اہے تاہم سہ فریقی سربراہ کانفرنس جس کی سربراہی ایران کررہا ہے یہ تاثر دے رہا ہے کہ معاشی ترقی کے اس زبردست دوڑ میں پاکستان الگ تھلگ رہ گیا ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کے مطابق دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک بھی بڑے پیمانے پر چاہ بہار میں زبردست سرمایہ کاری کررہے ہیں ایک اندازے کے مطابق پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مکران کے ساحلی بندر گاہ چاہ بہار میں ہورہی ہے جو گوادر سے صرف 72کلو میٹر دوری پر واقع ہے ۔ گوادرکے رہنے والوں کو فی الحال پینے کے لئے پانی نہیں مل رہا ہے تجارتی اور صنعتی ضروریات کے لئے پانی کی فراہمی دور کی بات ہے ۔ گوادر میں ابھی تک بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں لیکن پروپیگنڈا اتنا زیادہ ہے کہ گوادر جلد ہی پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔ ابھی تک کوئی ایک شخص یا کمپنی نے گوادرمیں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا سوائے چینی اداروں کے ۔ بہر حال گوادر بہت بڑا پورٹ ہے اس کو کب استعمال میں لایا جائے گا ، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے؟