|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2016

پورے صوبائی سیکرٹریٹ میں ابھی تک ماتم کی صورت حال ہے ، اعلیٰ سے ادنیٰ افسران تک اس شاک سے نہیں نکلے ہیں کہ مشتاق رئیسانی کے گھرسے 73کروڑ روپے نقد بر آمد ہوئے ، یہ تو صرف ایک واقعہ ہے مشتاق رئیسانی بہ حیثیت سیکرٹری خزانہ سالانہ 200ارب سے زائد کے مالک تھے ۔ اسی طرح ان کے وزیر نامدار بھی اتنا ہی طاقتور تھے ان کے انا اور تکبر کے ہم اخبار نویس بھی شکار رہے انفرادی طورپر نہیں بلکہ اجتماعی طورپر اخبارات کی صنعت کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک بار وفاقی حکومت نے اشتہارات کے ریٹ میں اضافہ کیا ۔ وزارت خزانہ بلوچستان نے وفاقی حکومت کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ اخباری اشتہارات کے ریٹ ہم سے پوچھے بغیر بڑھائے گئے حالانکہ وفاقی حکومت اور تین صوبائی حکومتوں اور آزاد کشمیر کی حکومت نے اس پر فوری طورپر عمل درآمد کیا ۔ہم اخبار نویس وفد بنا کر وزیراعلیٰ نواب مگسی سے ملاقات کی۔ ان کے حکم پر سیکرٹری خزانہ نے اس پر عمل درآمد کیا ۔ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر اخباری اشتہارات کے بجٹ میں دہائیوں سے اضافہ نہیں ہوا حالانکہ صوبائی ترقیاتی بجٹ صرف ایک آدھ ارب روپے تھی تو صوبائی حکومت کا اشتہاری بجٹ بارہ کروڑ روپے تھا ۔ ترقیاتی بجٹ سالانہ بڑھتے بڑھتے آج کل 56ارب روپے ہوگیا ہے ہر ایم پی اے کو سالانہ بیس کروڑ سے زائد ذاتی بجٹ ترقی کے نام پر دی جاتی ہے ۔ پورے اخباری صنعت کا اشتہاری بجٹ صرف بارہ کروڑ روپے سالانہ ہے اس کو کبھی بھی نہیں بڑھایا گیا اس وجہ سے مالی سال کے درمیان رقم خرچ ہوجاتی ہے اور پھر مزید رقم کی حصول کی کوشش ہوتی ہے یہ ہر سال ہوتی ہے یوں صوبائی حکومت اخبارات کے واجبات ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے یا اس میں تاخیر ہوجاتی ہے ۔ کارپوریٹ پریس پر کوئی فرق پڑتا وہ اپنا بڑا منافع بلوچستان سے باہر فوراً منتقل کردیتے ہیں ہم غریب اور مقامی پریس پریشان رہتے ہیں ،کئی کئی ماہ مقامی پریس سے وابستہ کارکنان کے واجبات کی ادا ئیگی نہیں ہوتی جن کی وجہ سے غریب کارکنوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چونکہ بلوچستان میں کرپشن ،کک بیک اور کمیشن عام ہے اس لئے جب سیکرٹری خزانہ یا دوسرے متعلقہ افراد کے پاس سرکاری درخواست برائے ادائیگی واجبات جاتی ہے تو ہر دوسرا کرپٹ وزیر اور افسر اس کو روک دیتا ہے ۔ ہفتوں اپنے پاس رکھتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ اتنی بڑی کروڑوں کی رقم میں ان کو بھی حصہ دیا جائے ۔ ہم نے بار ہا وزرائے اعلیٰ سے ملاقاتیں کیں اور ان سے بحث کی کہ واجبات ہیں اور حکومت کو جلد یا بدیر ان کوادا کرنے ہیں ۔ وزرائے اعلیٰ احکام جاری کرتے رہے مگر معاملہ وہیں کا وہیں رکا رہا ۔ گزشتہ دنوں محکمہ اطلاعات نے سولہ کروڑ واجبات کی ادائیگی کی سمری سیکرٹری خزانہ کو بھیج دی اور حسب عادت سابق سیکرٹری نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔گمان یہ تھا کہ وہ اپنا حصہ مانگتے ہوں گے مگر دباؤ کے بعد انہوں نے سمری منظور کی اور صرف نصف رقم کی ادائیگی کا حکم صادر کردیا یعنی سولہ کروڑ واجبات کے بجائے آٹھ کروڑ دینے کا حکم دیا ۔۔۔کیوں؟ اب موصوف جیل میں ہیں ہم ان سے نہیں پوچھ سکتے تاہم وزیراعلیٰ کا تازہ حکم ہے کہ تمام واجبات فوری طورپر ادا کیے جائیں اور سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ مالی سال کے درمیان دوبارہ محکمہ خزانہ سے فنڈز کی درخواست نہ کرنی پڑے۔ ان تمام باتوں کا مقصد صاف اور واضح ہے کہ بلوچستان میں کرپشن عام ہے اور اخبارات اور اخبار نویس بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کرپشن کا حال ہر شخص جانتا ہے خصوصاً سابق وزیراعلیٰ نے اپنے حیرانی کااظہار کیا کہ اس کے ناک کے نیچے کرپشن ہوئی حالانکہ پورے 200ارب کے بجٹ کے اصلی مالک وزیراعلیٰ تھے ان کو سب معلوم تھا کہ ان کا کون سا وزیر، کون سا افسر کرپشن میں ملوث ہے ۔ ان پر بحرحال یہ الزام عائد ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟