|

وقتِ اشاعت :   June 30 – 2016

بلوچستان ہمیشہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان کو بجلی ‘ گیس اور بنیادی ڈھانچے کی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اس کی واضح دو مثالیں آج عوام کے سامنے موجود ہیں۔ پہلے یہ کہ سوئی گیس بلوچستان کے مقام سوئی میں 57سال قبل دریافت ہوئی ، پورے ملک کو قدرتی گیس سپلائی کی گئی پنجاب کے ان دیہاتوں خصوصاً نارو وال جو مشرقی پنجاب کے سرحد پر واقع ہے اس کو سوئی گیس فراہم کی گئی لیکن بلوچستان کے بہت بڑے شہر خضدار ’ تربت‘ ‘ پنجگور ‘ نوشکی ‘ دالبندین وغیرہ کو 57سال بعد بھی قدرتی گیس کی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان کے 29اضلاع قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں آج دن تک وفاقی حکومت نے اپنے 45کھرب روپے کے بجٹ میں سے بلوچستان میں عوام الناس کو قدرتی گیس فراہم کرنے کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا ہے اور آئندہ بھی اس قسم کا کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ بلوچستان کے 29اضلاع جو قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں ان کو بھی قدرتی گیس فراہم کی جائے۔ سی پیک کا بڑا چرچا ہے درجنوں اکنامک زونز کا تذکرہ ہے اس میں خضدار بھی شامل ہے ۔ وہاں نہ گیس ہے ’ نہ بجلی ‘ نہ پانی اور نہ ہی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچہ موجود ہے صرف انکی فراہمی کے لئے کئی دہائیاں درکار ہیں سالوں میں یہ نہیں بن سکتے ۔ ابھی تک حکومت نے یہ وعدہ تک نہیں کیا کہ خضدار کو گیس فراہم کرے گی۔ وزیراعلیٰ کی درخواست پر وزیراعظم نے صرف یہ وعدہ کیا کہ خضدارکو سوئی گیس نہیں صرف اور صرف ایک ایل پی جی پلانٹ ملے گا جو صرف اور صرف مقامی گھریلو ضروریات کو کسی حد تک پوری کر سکے گا ۔ یہ تو ہوئی صرف ایک شہر کی بات جو بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ باقی ماندہ 29اضلاع کو گیس کی فراہمی کا لوگ تصور نہ کریں۔ اسی طرح بجلی کا بحران اپنی جگہ پر گزشتہ 67سالوں سے موجود ہے ۔ موجودہ ٹرانسمیشن لائن صرف 600میگا واٹ کا لوڈ اٹھا سکتا ہے موجودہ پسماندہ اور غریب ترین صوبے کی بجلی کی کم سے کم ضروریات 1600میگا واٹ ہیں یعنی موجودہ بلوچستان کو ضرورت سے 1000میگا واٹ بجلی کم دی جارہی ہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان آج بھی 2400میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے اور یہ اضافی بجلی سندھ اور پنجاب کو دی جارہی ہے ۔ اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا کوئی ایسا منصوبہ زیر غور نہیں ہے جس سے پورے صوبے میں پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جائے ، ہر دیہات اور ہر شہر کو بجلی 24گھنٹے فراہم کی جائے ۔ اس پر وفاقی حکومت حکومت ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کررہی ہے اس کو چھورڈ یں صوبائی حکومت نے وفاقی ادارے کو تمام مطلوبہ رقم سالوں پہلے ادا کردی ہے کہ نوکنڈی تک پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جائے تاکہ معدنیات سے مالا مال اس علاقے کوبجلی کی سہولت فراہم کی جائے لیکن وفاقی ادارہ جو کیسکوکے نام سے جانا جاتا ہے ہر سال حکومت سے اضافی رقم طلب کرتاہے پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرکے نہیں دیتا ۔اخراجات میں اضافہ کا بہانہ بنا کر مزید رقم صوبائی حکومت سے بٹورتا رہتا ہے ۔ موجودہ حکومتی پالیسی کے تحت تقریباً یہ نا ممکن بات معلوم ہوتی ہے کہ حکومت پاکستان ایران سے بلوچستان کے لئے یا گوادر کے لئے بجلی آدھی قیمت پر خریدے۔ حالات اور پالیسی میں تبدیلی کے بعد ہی اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں بجلی اور گیس کا بحران ختم ہو۔