|

وقتِ اشاعت :   July 1 – 2016

صرف 24گھنٹوں میں کوئٹہ شہر میں دہشت گردی کے تین واقعات ہوئے جن میں آٹھ سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔ پہلے واقعہ میں دو پولیس اہلکار ‘ اور چند گھنٹوں بعد دو دیگر اہلکار ہلاک ہوئے ۔سب سے زیادہ خوفناک واقعہ زرغون روڈ پر پیش آیا جہاں پر نا معلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے ایف سی کے چار سپاہیوں کو ہلاک کردیا اوردو زخمی ہوئے ان میں سے ایک راہ گیر تھا ایف سی اہلکاروں کا تعلق سوئی رائفلز سے تھا وہ گاڑی کی مرمت کرانے زرغون روڈ آئے تھے جہاں پر وہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ واقعہ کے فوری بعد سیکورٹی اداروں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دہشت گردوں کی تلاش شروع کردی ، موقع پر مکمل شواہد اکٹھے کرنے کے بعد تفتیش شروع کردی گئی۔ ادھر ایک نا معلوم شخص نے اخباری دفاتر پر فون کرکے لشکر جھنگوی العالمی کی طرف سے دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ فون شاید افغانستان سے یا افغان سم سے کیا گیا تھا چونکہ تحقیقات جاری ہیں اور تفتیش کاروں نے ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی کہ یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں جنہوں نے پولیس ‘ ایف سی یا سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو پے درپے نشانہ بنایا ان کے کیا مقاصد تھے ابھی تک زیادہ شواہد سامنے نہیں آئے ہیں غالباًان حملوں میں دشمن سیکورٹی اداروں کاہاتھ ہوسکتا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ان حملوں کا مقصد سیکورٹی اہلکاروں اور خصوصاًعوام الناس میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہے ۔تقریباً تمام رہنماؤں نے جنہوں نے ان واقعات کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی ان کا بھی یہی خیال ہے کہ ان واقعات کا مقصد ملک کے اندر خوف و ہراس پیدا کرنا ہے ۔ اس سے قبل دو اہم واقعات کراچی میں بھی ہوئے ان میں صابری قوال کو گولیاں مارکر شہید کیا گیا اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغواء کیاگیا ۔ ان چار پانچ واقعات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ان میں دشمن ممالک کے سیکورٹی اداروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے تاکہ ملک میں خوف ہ ہراس کے ذریعے سیاسی اور انتظامی عدم استحکام کی صورتحال پیدا کی جائے۔ لیکن دشمن ممالک کے توقعات کے برعکس ان امن و امان اور سیاسی صورت حال میں استحکام موجود ہے اس طرح سے عوام الناس نے دشمنوں کے اس چال کو ناکام بنا دیا ہے ۔ پاکستان کو سیکورٹی خطرات لاحق ہیں اس کی بڑی وجہ تورخم اور چمن پر آزادانہ آمد و رفت ہے اکثردہشت گرد بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے بعد واپس افغانستان چلے جاتے ہیں ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان غیر قانونی تارکین وطن پاکستان میں معاشی وجوہات کی بناء پر موجود ہیں ان میں سے اکثر سیکورٹی رسک ہیں کرائے کے آدمی ہونے کے ناطے وہ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں لہذا سیکورٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان غیر ملکی تارکین وطن کی واپسی اشد ضروری ہے ۔ اسی طرح افغان مہاجرین کے واپسی کا عمل فوری طورپر شروع کی جائے ۔ موجودہ حکومت نے اپنی کمزوری کا مظاہرہ کیا ۔ پہلی بار ان مہاجرین کو چھ ماہ تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی آج پھر دوسرا اعلان اخبارات میں چھپا ہے کہ ان کو 31دسمبر تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے مگر غیر قانونی تارکین وطن کو تو کوئی اجازت نہیں دی گئی ۔ لہذا ان کے خلاف فوری کارروائی شروع کی جائے کم سے کم ان کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چائیے تاکہ وہ خود اپنے ملک اپنی مرضی سے واپس جائیں ۔