|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2016

مشرف دور میں جب گوادر ڈیپ سی گوادر پورٹ کا منصوبہ چین کے حوالے کردیا گیا تو بلوچ سیاسی قیادت میں ہلچل مچ گئی اور یہ خدشہ سراٹھانے لگ گیا کہ اس منصوبے کے شروع ہونے کے بعد بلوچ اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے البتہ ابتدائی دنوں میں مولانا عبدالحق کے علاوہ تمام مکرانی مڈل کلاس اور غیر مڈل کلاس قیادت اس منصوبے کو بلوچستان اور خاص طورپر مکران کے لئے خوشحالی کا ضامن سمجھتی رہی بہر حال مڈل کلاسیہ دور حکومت سے پہلے مکرانی قوم پرست قیادت بھی گوادر منصوبے کی بارے میں بادل نخواستہ وہی رائے رکھنے پر مجبور ہوتی رہی جو بلوچ انٹلی جنژ یا سمیت دیگر قوم پرستوں کی رہی اسے وقت کی ستم ظریفی کہیے یا خود غرض سیاستدانوں کی خوش قسمتی کہ اقتدار کے سنگھاسٹن پر براجمان ہونے کے بعد ان کی دل کی آواز زبان پر آنے لگی۔ بہر حال خرگوش اس بہارسے پہلے دیگر قوم پرستوں کی طرح گوادر منصوبے کو لے کر پریشان اور مخمصے کا شکار رہی ۔ اس دوران بلوچ سیاسی اتحاد کمیونسٹ نظریات پر نہیں بلکہ چین مخالف خیالات پر بننے لگے ۔ اسی اثناء میں نواب اکبر خان بگٹی نے سنگل بلوچ جماعت کا تصور پیش کیا اور پوری بلوچ سیاسی قیادت کو ڈیرہ بگٹی آنے کی دعوت دی جھالا وان میں گولیاں چلنے کی باتیں اسی دورمیں رقم ہوئیں وہ خدا توکا شکرہے کہ ہمارے مڈل کلاس قائدین ڈیرہ بگٹی نہ پہنچ سکنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دست وپابندھے ہوئے سبی کے قریب کسی نہر کنارے مل گئے تھے ورنہ وہاں پر یہ اعلان بھی کوئی ان ہونی بات نہ ہوتی کہ’’ اگر ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلی تو مکران کو میدان جنگ میں تبدیل کردیں گے‘‘ اورجب وقت آتا تو حسب عادت یہ کہتے کہ ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ہم سے کافی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ‘‘ ‘‘ بے شک اللہ ہی اپنے برگزیدہ بندوں کو مصیبتوں سے بچاتا ہے ‘‘ اس سلسلے میں بلوچ عوام نے صرف اللہ کا شکر بجا نہیں لایا تھا بلکہ اپنی نایاب قائدین کی بازیافتی پر با قاعدہ مٹھائیاں تقسیم کی تھیں بلوچ قوم کا سیاسی سرمایہ بازیافت ہوچکا تھا لیکن گوادر منصوبے کے معاملے میں ان کے خدشات ‘ تحفظات اور تشویش ہنوز باقی تھیں‘ سو اب بھی باقی ہیں! ورنہ سرکاری قوم پرستوں کی جانب سے یہ رٹ لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ ’’سی پیک کو بلوچ قوم کی حمایت حاصل ہے ‘‘معلوم نہیں ایسے مواقعوں پر یہ ’’ بلوچستانی قوم ‘‘ کو کیوں بھول بیٹھتے ہیں ۔ بہر حال اس اعلان کے باوجود سرکاری قوم پرست گوادر منصوبے کو لے کر بلوچ قوم کی اقلیت میں تبدیلی کے بہانے کے حل اور خدشے کو دورکرنے کے لئے کوئی مدلل ’منصوبہ تخلیق کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ جس سے وہ عام بلوچ کویہ اعتماد دلاسکیں کہ بلوچ سی پیک کے بعد اقلیت میں تبدیل نہیں ہوں گے ۔ اس تناظر میں ہمارے چند یار لوگ انتہا درجے تک مایوسی کا شکار ہوگئے اور انہوں نے ببانگ دہل یہ کہنا شروع کردیا کہ گوادر وہ تیر ہے جو بلوچ کمان سے نکل چکی ہے اور اسے دوبارہ واپس لانا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے لیکن 11اگست کو ایک حکومتی قوم پرست قائد نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ قوم کے اس الجھے ہوئے گھمبیر مسئلے کا وجدانی اور الہامی حل تفویض کردیا جس سے نہ صرف بلوچ ششدر رہ گئے بلکہ خوشی سے پھولے نہ سمارہے ہیں ۔ 11اگست کے جلسے میں ایک لیجنڈری قائد نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے یہ خوش خبری سنائی کہ ’’ ہمیں چین پاک راہداری پر کوئی اعتراض نہیں ‘ سی پیک بلوچ قوم کو منظور ہے اور اسی میں بلوچ قوم کی تاریخی ترقی اور بقا مضمر ہے ‘‘ اور ساتھ ساتھ یہ حل بھی بتا دیا کہ ’’ اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچنے کے لئے بلوچ گوادر کی زمینیں خود خریدیں اور گوادر میں اپنے کاروبار کا آغاز کریں‘‘ کیادوراندیشی ہے صاحب اور کیا مشورہ ہے جاناں! غیر سنجیدہ یار لوگوں نے اسے صدی کا بہترین لطیفہ سے تشبیہ دی اور کہا کہ ’’ گھر میں آٹا نہیں اور بیٹا بضد ہے کہ پریاں پکا‘‘ اب ان بیچارے یار لوگوں کو لاڈلے بیٹوں کے فرمائشوں کا کیا پتہ ؟ حالانکہ یہ ایسی بات نہیں اگر بلوچ قوم از خود سست ‘ کاہل ‘ کاروبارسے نا بلد نکمہ اور غریب ‘‘ ہے تو اس میں ہمارے ویژنری اور دوراندیش قائد کا کیا قصور؟ اسی طرح کا ایک الزام اٹھارویں صدی میں فرانس کی بیچاری شہزادی میری انتھونی پر بھی لگایا گیا تھا ان کا بھی قصور یہی تھا کہ انہوں نے بھی اپنی بھوکی قوم کو ایک دور اندیشانہ مشورہ دیا تھا فرانس کے فطرت پرست قلمکار جین جا ک روسونے اپنی سوانحہ عمری’’ اعترافات‘‘ میں بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ فرانس میں غربت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور لوگوں کو روٹی کے لئے آٹا تک دستیاب نہ تھا لوگوں نے تنگ آ کر پورے فرانس میں احتجاج شروع کردیا ’ کچھ مظاہرین شہزادی میری انتھونی کے محل کے سامنے احتجاج کرنے لگے جس پر شہزادی نے اپنے خادمہوں سے پوچھا کہ ’’یہ لوگ محل کے سامنے جمع ہو کر کیوں احتجاج کررہے ہیں ‘‘ خادمہوں نے ملکہ کو جواب دیا’’ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فرانس میں روٹی (دستیاب ) نہیں ہے ۔ تو ملکہ نے برجستگی سے مسئلے کا حل بتاتے ہوئے جواب دیا ‘‘ تو پھر یہ کیک کھائیں ! ‘‘