|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2016

کراچی: لیاری کے باشندے خودعرصہ دراز سے دہشت گردی کا شکار ہیں‘ گزشتہ چارسالوں کے دوران سینکڑوں افراد اپنے قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں‘سابق ایم این اے نبیل گبول نے گزشتہ روزایم کیوایم کے سابق رکن عامر لیاقت کی سیکیورٹی کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہاہے کہ عامر لیاقت کو لیاری کے عوام تحفظ دینگے‘ نبیل گبول کے اس بیان کی سرجری اگر کی جائے تو اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ لیاری کے نوجوان دہشت گرد اور اسلحہ بردار ہیں جن کا پیشہ جرائم ہے ‘اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ لیاری کے ہی بزرگوں نے ون یونٹ توڑنے آمروں کے خلاف جدوجہد میں کئی قربانیاں دیں‘‘لیاری کی کھوکھ نے اہم سیاسی رہنماؤں‘مفکروں‘دانشوروں ادیبوں مصنفوں کوجنم دیااور بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ رہا ہے جو اب بھی ہے‘بلوچستا ن میں جب بھی انسانی حقوق کی پامالی ہوئی یا سیاسی بحران پیدا ہوا تو لیاری کے عوام نے بلاجھجھک اس جدوجہد میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا‘ لیاری کی سیاسی تاریخ قدیم ہے یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ حقیقی سیاستدانوں کا ساتھ دیا مگر بدقسمتی سے جب سیاسی سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ نے یہ محسوس کیا کہ لیاری کے عوام قوم پرست اور حقیقی سیاست پریقین رکھتے ہیں انسانیت اُن کی اولین ترجیح ہے تو انہیں توڑنے کیلئے انہی کے درمیان ایسے لوگ پیدا کیے جائیں جو دہشت اور پیسے کے ذریعے یہاں کی سیاست اور لیاری کے باشعور لیڈر شپ کے خلاف محاذ کھول سکیں اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پھر اسلحہ منشیات دہشت گرد پیدا کرنا شروع کرنے کا پلان مرتب کیا گیا اوراپنے زرخرید سفید پوش لوگوں کو فرنٹ لائن پر بھیج دیا اُن کی پشت پناہی کیلئے منشیات فروش اسلحہ برداروں کو منظم کیا تاکہ وہ لیاری کے عوام کو یرغمال بناکر یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں جس کی تاریخ قدیم ہے مگر اِس کی واضح مثال 2008ء کے جنرل الیکشن کے دوران امن کمیٹی کا اہم کردار ہے‘ امن کمیٹی اس وقت صرف ایک گینگ گروہ کے پاس تھی مگر اِس کو مزید وسعت دینے کیلئے عبدالرحمن بلوچ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ تمام ناراض گینگ گروہوں کو مناکر اپنے ساتھ ملالے کسی حد تک یہ کامیابی امن کمیٹی کو ملی صرف ایک گروہ حاجی لعل محمد عرف لالو کے گروہ جس کی سرپرستی ارشد پپو کررہے تھے وہ امن کمیٹی کا حصہ نہ بنا اور اپنا الگ نیٹ ورک چلاتا رہا‘ 2008ء کے جنرل الیکشن کے دوران عبدالرحمن بلوچ کو نبیل گبول کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے دھاندلی کے ذریعے کامیاب قرار پائی‘ عبدالرحمن کے قتل کے بعد امن کمیٹی کا نیا سربراہ عزیر بلوچ کو چنا گیا ‘ عبدالرحمن کے قتل کے بعد امن کمیٹی میں شامل گینگ کے اہم کارندے پیپلزپارٹی کی قیادت سے سخت نالاں ہوگئے کہ انہی کی حکومت کے دوران عبدالرحمن کو پولیس مقابلے میں کیسے قتل کیا گیا اور کس کی ایماء پر یہ سب کچھ ہوا‘پیپلزپارٹی کو لیاری چھوڑنا بھی نہیں اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی بھی شامل ہے کہ لیاری کو کسی بھی طرح اپنے کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے تاکہ اُن سے وقتاََفوقتاََ کام لیا جاسکے‘پیپلزپارٹی اندرون سندھ میں مضبوط جماعت ضرورہے مگر کراچی میں ایک کمزور جماعت ہے لیاری اور ملیر میں نشستوں پر کامیابی انہی گروہوں کی مرہون منت ہے‘اب امن کمیٹی کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانا ان کیلئے انتہائی ضروری تھا مگر اس بار عزیر بلوچ کے ساتھ شامل اہم کارندوں نے شرائط رکھے جس کو ماننا عزیر بلوچ کیلئے ضروری تھا اور یہی شرائط پیپلزپارٹی اور امن کمیٹی کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی‘نبیل گبول نے امن کمیٹی کے زیر اثر فیصلوں سے انکار کیا اور امن کمیٹی کے اہم کارندے یہی سمجھتے رہے کہ نبیل گبول نے عبدالرحمن کو قتل کرایا تاکہ وہ لیاری میں ون مین شو کا کردار ادا کرے پھر نبیل گبول کی لیاری سے چھٹی کرادی گئی مگر پیپلزپارٹی نے درمیان کا راستہ نکالنے اور متحدہ قومی موومنٹ کے مد مقابل شہر میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے امن کمیٹی کے ساتھ صلاح کو اہمیت دی جس کے بعد سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کو میدان میں لایا گیا حالانکہ ذوالفقار مرزا نے اسمبلی فلور پر اس بات کا برملا اظہار کیا کہ عبدالرحمن کاصفایا ہم نے کیااور اس کے ساتھ یہ بھی کہاکہ عبدالرحمن کوقتل کرانا میری غلطی تھی یہ وہ پالیسی بیان تھا جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی امن کمیٹی کے ساتھ ہاتھ ملاکر ذوالفقار مرزا کو تمام معاملات سونپ دیئے جائیں تاکہ وہ امن کمیٹی کو اپنے ساتھ ملاسکے اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اسی طرح پیپلزپارٹی نے عزیر گروپ کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ اپنے پرانے اور وفادار خاندان پیپلزپارٹی کے رکن نبیل گبول کو سائیڈ لائن کیا‘نبیل گبول وقتی طور پر خاموش رہے ‘اب تمام معاملات عزیر بلوچ اور ذوالفقار مرزا کے درمیان طے ہورہے تھے‘متحدہ قومی موومنٹ ہر فورم پر یہ بات اٹھارہی تھی کہ امن کمیٹی کو پیپلزپارٹی کی سرپرستی حاصل ہے دوسری جانب پیپلزپارٹی امن کمیٹی سے لاتعلقی کا اظہار کررہی تھی‘ذوالفقار مرزا ہر جگہ اس بات کااظہار کررہے تھے کہ امن کمیٹی میں شامل تمام افراد میرے بیٹے ہیں جبکہ ذوالفقار مرزا کے اس عمل کے تردید کے بیانات پیپلزپارٹی کی جانب سے آرہے تھے مگر یہ سارا ڈرامہ ہی تھا اسکرپٹ طے شدہ تھا‘ایم کیوایم شور مچارہی تھی کیونکہ جہاں سے اُن کی وصولی ہورہی تھی وہ علاقے اُن کے ہاتھوں سے نکلتے جارہے تھے صورتحال اس قدر بگڑتی گئی کہ کراچی میں بلوچ اور اردو بولنے والوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ تو دوسری طرف امن کمیٹی تھی ‘اس دورانیے میں امن کمیٹی کو شہر میں پھیلانا شروع کردیا گیا پھر بھتے کی پرچیاں اب شہر کے ہر تاجر کے پاس پہنچ رہے تھے تاجر برادری کو اب ایک گروپ کو نہیں بلکہ دو گروپوں کو بھتہ دینا تھا جو اُن کیلئے درد سر بن گیا‘ اب حالات مزید گھمبیر ہوتے جارہے تھے تو اسی دوران نبیل گبول نے پھر اِنٹری ماری عزیر بلوچ سے ناراض گروہوں کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ اپنے رابطے بحال کیے ایک بار پھر اسکرپٹ کوتبدیل کیا گیا مگر نتیجہ الٹ نکلا‘نبیل گبول اور اویس مظفر نے عزیر گروپ کا مکمل صفایا کرانے کا پلان تشکیل دیا گیا اور لیاری میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیاگیا جس کی کمانڈ چوہدری اسلم کررہے تھے پانچ روزہ آپریشن بغیر کسی نتیجے کے اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا اور امن کمیٹی مزید مضبوط ہوگئی آپریشن کی ناکامی کے پیچھے بہت بڑے ہاتھ تھے جس کا تصور شاید پیپلزپارٹی بھی نہیں کرسکتاتھا‘بہرحال بعد کی جوصورتحال بنی عزیر گرفتار ہوگیا گروپوں میں دراڑیں پیدا ہوچکی ہیں مگر اس دوران نبیل گبول کا یہ بیان انتہائی بھیانک منظرنامہ پیش کررہا ہے کہ عامر لیاقت کو کس گروپ کے ذریعے نبیل گبول سیکیورٹی فراہم کرینگے‘ بیان کا پورا متن واضح ہے کہ آنے والے جنرل الیکشن سے قبل نبیل گبول اور پیپلزپارٹی کے درمیان صلح ہوگا اور ایک نیا چہرہ سامنے آئے گا جولیاری کے گینگ کی کمانڈ سنبھال کر پیپلزپارٹی کو الیکشن میں کامیاب کرے گا جس طرح امن کمیٹی نے جاویدناگوری‘ثانیہ نازکو ایم پی ایزجبکہ شاہجہان بلوچ اور مسلم لیگ ن کے حکیم بلوچ کو ایم این ایز کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرائی ‘حکیم بلوچ ملیر سے کامیاب قرار پائے تھے جی ہاں اس کی کامیابی کے پیچھے بھی امن کمیٹی تھی‘ نبیل گبول کا بیان آنے والے دنوں میں لیاری کے عوام کیلئے نیک شگون نہیں کیونکہ زخم اب بھی تازہ ہیں‘میرغوث بخش بزنجو چوک بم دھماکہ جھٹ پھٹ مارکیٹ پر خواتین اور بچوں پر ہینڈگرینڈسمیت جدید اسلحوں سے حملہ ایسے متعدد دلخراش واقعات ہوئے کہ آج بھی ہرگھرمیں ماتم ہے مگرنبیل گبول اپنی نشست اور لیاری کوکنٹرول کرنے کیلئے پھر سرگرم ہوچکے ہیں ‘اب کی بار لیاری کے عوام نے ہی فیصلہ کرناہے کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہونا ہے یا الم بغاوت کرکے یرغمال نہیں بننا۔