|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2016

بلوچستان سیاسی اور انتظامی عجائبات کا صوبہ ہے حالیہ عجوبہ یہ ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کے تمام جامعات میں کوئی پرووائس چانسلر موجود نہیں آپ حق بجانب ہونگے اگر کہیں کہ یہ کونسی بڑی بات ہے جب 2013ء کے نگراں دور حکومت میں بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ تھا کہ ایک اکلوتے وزیراعلیٰ نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تن تنہا بلوچستان میں نہ صرف الیکشن کروائے بلکہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب انتخابات کا سہرا بھی سر پہ سجالیا تھا ۔ عام انتخابات کے بعد منتخب وزیراعلیٰ نے پورے پاکستان میں سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیات انتخابات کرانے کا اعلان کردیا اور بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبے کے الیکشن کمشنر نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں اعتراف کیا تھا کہ ’’ہمیں اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کی استداد کی گئی سو ہم نے کردکھایا‘‘ پچھلے تین سال سے صوبے میں تعلیمی ایمر جنسی نافذ ہے مگر کوئی وزیرتعلیم موجود نہیں جیسے بلوچستان حکومت نے قسم اٹھا رکھی ہو کہ جب تک وزارت داخلہ کا کوئی وزیر مقرر نہیں ہوگا تب تک بلوچستان حکومت بھی تعلیمی مشیروں سے گزارہ کرتی رہے گی ۔ انتظامی عجائبات میں سے آپ یہ پڑھ کر حیران ہونگے کہ بلوچستان کے اکثر جامعات میں پرووائس چانسلر ز کی نشستیں پچھلے ڈھائی سال (چند تین مہینے ) سے خالی پڑی ہیں ( تعلیمی ایمر جسنی کے تحت پالیسی نہ ہو !) اس کی اہم وجوہات میں ایک یہ بتائی جاتی ہے کہ وائس چانسلرز اپنی سلطنت میں ’’ دو بادشاہ ‘‘ برداشت نہیں کر سکتے یا جنگل کا صرف ایک ہی شیر ہوتا ہے ۔ حالانکہ ہیرارکی کے مناسبت سے پرووائس چانسلر کی پوزیشن کوئی عمودی پوزیشن نہیں ہے بلکہ افقی پوزیشن ہے اس لیے وائس چانسلرز کو اپنے اختیارات کو لے کر ایک ماتحت پوزیشن کے لئے پریشان نہیں ہونا چائیے کیونکہ جامعات میں بہرحال سیگنٹری اتھارٹی صرف وائس چانسلر کی ذات ہیں لیکن اس معاملے میں دلچسپ امر یہ ہے کہ بلوچستان کے تمام جامعات میں خالی اس پوسٹ کیلئے (طلباء‘ اساتذہ ‘ اسٹاف اور مزدور ) تنظیمیں بھی خاموش ہیں گویا ان کی خاموشی وائس چانسلرز کی حمایت ہے کہ واقعی اس پوسٹ کی بلوچستان کے تمام جامعات میں سے کسی کو بھی ضرورت نہیں ہے حالانکہ جامعات میں مختلف شعبوں کا ایک جال بچھا ہوتا ہے کہ جس میں شعبے ‘فیکلٹی‘ فیکلٹی ممبران اور ڈینز کے علاوہ دیگر افسران اور آفسز موجود ہوتے ہیں ان سب انتظامی امور کو موثر طریقے سے سنبھالنا وائس چانسلرز کے لئے اکیلے ممکن نہیں جبکہ وائس چانسلرز کی جامعات کے اندر باہر اور بیرون ملک مصروفیات بھی ہوتی ہیں ۔ اس کے ساتھ بطور انسان وائس چانسلر بیمار بھی ہو سکتے ہیں ( یہاں وزیراعظم کی بیماری کی مثال کو درگور اعتنا نہ سمجھیں ) سوال یہ ہے کہ ان مصروفیات کے دوران جامعات کے انتظامی امور کو کون سنبھالے ؟ سوال پھر وہی ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ اگر ان نشستوں کی خالی ہونے سے جامعات کے وائس چانسلرز زیادہ مطمئن ہیں تو صوبے کے چانسلر جو گورنر بھی ہیں کیوں احکامات جاری نہیں کرتے کہ ان پوزیشنوں کو جامعات کے ایکٹ اور آئین کے مطابق پر کیاجائے ؟ حالانکہ بلوچستان حکومت مسلسل تعلیمی ایمر جنسی اور تعلیمی ترقی کی باتیں کرتی رہی ہے بلوچستان میں نئے جامعات کا بھی اعلان کیاجارہا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دوسری جانب جو جامعات موجود ہیں ان پر فنڈز کی کمی درکنار جامعات میں موجود خالی نشستوں کو تک پر کرنا گوارا نہیں کیا جاتا قارئین! اس سلسلے میں گورنر اور وائس چانسلر ز غفلت برت سکتے ہیں لیکن بلوچستان اسمبلی میں موجود ترقی اور تعلیم کے دعویٰ دار حکمرانوں کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ صوبے میں موجود تعلیمی اداروں کی حالت زار سے واقفیت حاصل کرکے ان کے ازالے کے لئے متعلقہ اداروں اور افسران کی باز پرس کرکے ان سے رپورٹ طلب کریں کیونکہ اگر موجودہ دور میں نہیں تو اگلے الیکشن میں عوام ضرور ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ حکمرانوں نے چرپ زبانی اور جھوٹے نعروں کا سہارا لے کر انہیں دھوکہ دینے کی کیوں کوشش کی ہے ۔ دوسری جانب اس دوران جامعات میں اس اہم عہدے پر خالی ہونے سے جامعات میں تعلیمی اور تحقیق کے شعبے کافی متاثر ہورہے ہیں ۔ کیونکہ جامعات میں کنٹرولر ‘ ٹریژار ‘ رجسٹرار کے ساتھ ساتھ پرووائس چانسلر کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہونگی اگر پچھلے ڈھائی سال سے پورے بلوچستان کے جامعات میں یہ نشستیں خالی ہیں تو مسلسل ان ذمہ داریوں کو کون اور کیوں نبھا رہا ہے ؟ اس سلسلے میں اگر بلوچستان حکومت تعلیمی ایمر جنسی‘ ترقی اور ترجیحات میں سنجیدہ ہے تو بلوچستان اسمبلی میں اس معاملے میں ضرور بحث ہونی چائیے گورنر بلوچستان جو صوبے میں وفاق کے نمائندے ہیں بلوچستان کے جامعات کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھے ہوئے ہیں جبکہ گورنر بلوچستان پر وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے دو مختلف ادوار میں چاکر اعظم یونیورسٹی اور خضدار یونیورسٹی کے اعلانات کے بعد ان کی منظوری نہ دینے کی الزامات بھی ہیں اس اثناء میں بطور چانسلر اگر انہوں نے بلوچستان کے جامعات میں خالی پرووائس چانسلرز کی پوزیشنوں کو پر کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے تو سول سوسائٹی میں ان کی علم دشمنی استعارہ بن جائے گی دوسری جانب اگر چانسلر بلوچستان کے تمام جامعات میں پرووائس چانسلر کے نشستوں کو ضروری نہیں سمجھتے تو ان کے خاتمے کا اعلان کریں یا بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کریں ۔ قارئین درستگی نوٹ فرمائیں !پچھلے کالم بعنوان بلوچستان پبلک سروس کمیشن سیاست کے شکنجے میں ‘‘ ایک جملہ سہواً سرزد ہوا تھا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں سابقہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کوئی قریبی رشتہ دارممبر ہے اس کی وضاحت کی جاتی ہے کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں ڈاکٹر عبدالمالک کا کوئی قریبی رشتہ ممبر نہیں ہے ۔ قارئین اس غلطی کی درستگی فرمائیں۔