|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2016

سندھ نے تھانہ کلچر پنجاب سے ون یونٹ کے دوران مستعار لیا ۔ سندھ پولیس میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانی 1955کے بعد سے شروع ہوئی ۔ پنجابی پولیس افسران نے چارج لینے کے بعد جھوٹے مقدمات ‘ جھوٹے مقابلے، چور ڈاکو پالنے کا کام ابتداء ہی میں شروع کردیا تھا آخر میں سندھ پولیس میں لوگ صرف اور صرف لوٹ مار کرنے اور رشوت کمانے کیلئے بھرتی ہونے لگے ۔ایم کیو ایم نے بھی اپنے دور حکومت میں اپنے لوگوں کو بڑے پیمانے پر بھرتی کیا ۔سندھ پولیس میں چاپلوسی اور حکم عدولی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ راقم نے اپنی آنکھوں سے اناج اور گھی کے ڈبے تھانیدار کے لئے جاتے دیکھے جو ایک سابق وزیراعظم پاکستان نے رشوت کے طورپر تھانیدار کو بھجوائے تھے۔ ہم نے سابق وزیراعظم سے پوچھاکہ یہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا ’’ سائیں تھانے دار سے کام پڑتا رہتا ہے اور اس کو خوش رکھنا ضروری ہے ‘‘ دوسرے واقعہ میں پنجاب کے آئے ہوئے ایک ڈی ایس پی کے گرد کھانے کی دعوت کے دوران وفاق کے چار وزیروں کو دیکھا جبکہ میزباں کا افسر ایس پی دبک کر کھونے میں بیٹھا ہو ا نظر آیا۔ اس کے پوری زندگی ایس پی اپنے ماتحت سے ان کی صرف خیریت ہی پوچھتا رہا ۔اسی طرح بعض مقتدر حلقوں نے پولیس کے اندر اپنے آدمی رکھے ہوئے ہیں جو حکومت کی بجائے ان کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ شاید راؤ انوار کا مسئلہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے عام پولیس افسر بغیر وارنٹ گرفتاری کے یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ ایک عوامی رہنماء اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرے۔ ان کے پاس وارنٹ نہیں تھے ڈاکٹر فاروق ستار بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ وارنٹ گرفتاری دکھاؤ، راؤ انوار نے وارنٹ گرفتاری نہیں دکھائے اگر ہوتے تووہ ضرور دکھاتا اور معاملہ خوبصورتی سے حل ہوجاتا ۔ مگر راؤ انوار کا گھمنڈ ٹی وی کیمرہ کے سامنے دیکھنے والا تھا انہوں نے سب سے پہلے چادر اور چار دیواری کو پامال کیا اور خواتین خانہ کے ساتھ بد سلوکی کی اور گھر کی تلاشی اظہار الحسن کی غیر موجودگی میں لی۔ پولیس فورس انتظار کر سکتی تھی کہ مالک مکان آئیں توان کی اجازت سے گھر کی تلاش لیں شاید ان کے پاس گھر کی تلاشی کا حکم نامہ نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ راؤ انوار نے سارے کام کسی کے حکم پر غیر قانونی طورپر ناانجام دئیے جس سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ انہوں نے پولیس کے سربراہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ۔ اس عمل سے وزیراعلیٰ سندھ بلکہ وزیراعظم پاکستان برہم ہوئے اور انہوں نے یہ حکم دے دیا کہ راؤ انوار کے خلاف حکم عدولی ‘ بدتمیزی، عوامی نمائندوں کی عزت اچھالنے اور خلاف قانون گرفتاری پر ’ کارروائی کی جائے ۔ کسی بھی رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے سے پہلے اسپیکر سے تحریری اجازت لیناضروری ہے لیکن راؤ انوار نے یہ کارروائی پوری نہیں کی شاید مقتدرہ حاکم کا حکم تھا کہ پہلے گرفتار کرو بعد میں دیکھ لیں گے ۔ کراچی کے شہری بلکہ ملک بھر کے لوگ گواہ ہیں کہ بعض پولیس افسران زیر تحویل افراد/ ملزمان کو قتل کرنے میں ملوث رہے ہیں ان میں راؤ انوار سرفہرست ہیں ایسے افسروں میں بعض کا انتقال ہوگیا یا مخالفین نے ان کو قتل کردیا ۔ یہ غیر قانونی قتل بھی کسی کے احکامات پر ہوئے ہوں گے ۔ پولیس افسر اپنے طورپر اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا ۔ شاید اسی لئے وسیم اختر کو جب راؤ انوار کے پولیس تحویل میں دیا گیا تھا تو توقع تھی کہ اب اس کی لاش ملے گی مگر پہلی بار ایسانہیں ہوا ۔ وسیم اختر صحیح سلامت عدالتی تحویل میں پہنچ گئے ۔ راؤ انوار ایک نرالے افسر ہیں انہوں نے ہمیشہ حیرت انگیز کمالات دکھا کر پروموشن لی ہے۔ ایک وقت اس سے زیادہ سینئر افسران نے اعلیٰ عدالت کا رخ کیا جس پر راؤ انوار کی شولڈر پروموشن واپس لے لی گئی ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ راؤ انوار کو ملیر میں تاحیات تعینات کیا گیا ہے جب تک ان کا انتقال پر ملال نہیں ہوتا وہ ملیر ہی میں تعینات رہیں گے۔ وہ ملیر میں ایس ایچ او ‘ ڈی ایس پی اور اب ایس پی ہیں۔ پہلی بار وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر نہ صرف ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے بلکہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کے احکامات جاری بھی ہوئے ہیں ۔ وجہ۔۔۔ پورے ملک میں اس واقعہ کے بعد ایک زیر دست بھونچال آگیا ہے ، ایسا بھونچال مقتدرہ کا کوئی اہم کارندہ ہی لا سکتا ہے ۔