|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2017

غالباً 37 سال بعد پاکستان و چین دوستی کی سب سے بڑی علامت ایک سڑک کا منصوبہ ہے جو کہ 65 اَرب ڈالر کی لاگت سے بننے والی گوادر اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے اس ضمن میں کاشغر سے گوادر تک دو ہزار کلو میٹر لمبی سڑک کے منصوبے پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے آٹھ یاداشتوں اور مختلف معاہدوں پر دستخط کئے اپریل 2015 ؁ء میں چینی صدر کے دورہ پاکستان میں سی پیک کے حوالہ سے منصوبوں کی تفصیلات گوش گزار ہوئے جنکی مجموعی لاگت 46 اَرب ڈالر تھی ان میں سے 34 اَرب ڈالر توانائی منصوبوں جبکہ 10 ارب ڈالر ذرائع آمدو رفت کیلئے مختص کئے گئے تھے پاکستان چین تعلقات میں سی پیک کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔اس سال اکتوبر تک مزید 8 ارب ڈالر کے منصوبوں کی منظوری کے بعد سی پیک تقریباً 66 ارب ڈالر کی لاگت کا اہم منصوبہ بن جائیگا سی پیک نہ صرف ملک کی تقدیر بدل دے گا بلکہ غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ ہوگا دانشوروں کا بنیادی نقطہ یہ ہے گوادر بندرگاہ اس سے وابستہ راہداریوں کے تعین اور شراکت داروں کے امور پر وفاقی حکومت بلوچستان کو نظر انداز کرنا چاہتی ہے تو بھی چین کو مختار کل بنانے میں سوچ و بچار سے کام لینا پڑے گا اگر ہر فیصلہ کا مختار کل چین ہوگا تو بلوچستان کے مفادات کا نگہبان کون ہوگا۔ آئے دن دانشور حلقوں میں بحث و مباحثہ جاری ہے قوم پرست سیاسی پارٹیاں پہلے ہی سے اس پر واویلا کررہی ہیں۔اُن کے سیاسی معاشی، سماجی اور آئینی حقوق کا دفاع کس بنیاد پر ہوگا۔ مشہور دانشور راحت ملک اپنے آرٹیکل میں لکھتا ہے پاکستان کے ریزرو بینک میں سونے کے ذخائر 64 ٹن ہیں جبکہ چین نے سیندک سے 2012 ؁ء تک 18 ٹن سونا اپنے ملک لے جاچکا ہے اگر سیندک ریکوڈک سے نکلنے والی تمام قیمتی دھاتیں سونا، چاندی، تانبہ، پاکستان کے پاس رہتا تو ہمارے قرضے آسانی سے اُتارے جاسکتے تھے اور یقیناً آج پاکستانی روپے کی قدر ڈالر سمیت دنیا کے دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں بہت مستحکم ہوتی! گوادر اس سے وابستہ راہداریوں کی تشکیل و تعمیر علاقائی سفارتی امور، علاقائی اقتصادی اشتراک و تعاون اور استحکام کیلئے چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو خود فیصلہ کرنا ہوگا اس کا فریضہ چین کے بجائے پاکستان بشمول صوبہ بلوچستان کو سر انجام دینا چاہیے۔ اہل بلوچستان چین دوستی اور تعاون کاصدق دل سے شکر گزار ہیں لیکن چین سے خیرات وصول کرنا نہیں چاہتے بقول راحت ملک کے یہ بات حقیقت ہے چین نے سی پیک راہداری کی تعمیر و تعین کیلئے پاکستان سے سال 2017 ؁ء میں 40 لاکھ چینی ہنر مند اہلکاروں اور دیگر عملے کیلئے ویزے جاری کرنے کا بندوبست کیا ہے ایسا لگتا ہے اتنی بڑی تعداد میں چینی ماہرین، ہنر مند اور متعلقہ عملہ گوادر میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں جہاں سی پیک کی کشش جاری وساری رہیگا، سردست کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے اقتصادی راہداری کیلئے پانچ مختلف مقامات پر مستقل رہائشی کالونیاں بنانے کا چرچا ہے جہاں چینی افراد کی بڑی تعداد تکنیکی امور سر انجام دینے کیلئے رہینگے نیزتجارتی قافلوں کی صورت میں بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں۔یہ کالونیاں کہاں بنیں گی اس کا انحصار اقتصادی راہداری کے زمینی حقائق اور سہولیات پر ہے ہر کالونی میں تقریباً اڑھائی لاکھ چینی ہنر مند قیام کریں گے پھر بلوچستان کے مقامی آبادی کے روز گار کے مواقع کیا ہوں گے۔ گوادر کی آبادی اقلیت میں تبدیل نہیں ہوگی؟ فی الحال بلوچستان کو سی پیک کی کارکردگی اور مردم شماری کے مسائل کا سامنا ہے ہمارے ہاں مستری، کارپینٹر، الیکٹریشن دیگر غیر ہنر مند افراد تعلیمی پسماندگی کے حامل نوجوان چین کے تکنیکی افراد، کمپیوٹر اور مشین کے ماہرین اور جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین سے مقابلہ کریں گے۔ اگر چین دوررس نتائج اور حکمت عملی کی تسلی سے آگاہی چاہتا ہے تو مکران، گوادر اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے 20 ہزار نوجوانوں کو جن کے پاس ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور جدید ٹیکنالوجی کے سند یافتہ افراد کو مختلف شعبوں کیلئے بھرتی کرنا ہوگا غیر ہنر مند افراد کو ہنر مند بنانے کیلئے گوادر میں تربیت گاہیں قائم کی جاسکتی ہیں جہاں چین کے ہنر مند افراد مقامی بلوچوں کو تربیت یافتہ بنا کر صنعتی، تجارتی زون کیلئے اور بندرگاہوں کے چلانے کے امور میں تیار کریں گے۔ اس کے علاوہ چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چھٹہ کی طرف سے تازہ خبر یہ ہے کہ 90 روز میں 20 ہزار نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا فیصلہ ہوا ہے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی ہدایت پر بے روز گار نوجوانوں کو اہلیت کی بنیاد پر بھرتی کرنے کا پروگرام ہے بلوچستان کے تمام محکموں کی سیکرٹریوں کی ڈیٹا جمع کرنے کے متعلق میٹنگیں ہوچکی ہیں یقیناً نیا سال بلوچستان میں بے روز گاری کے خاتمے کا سال ہوگا۔ علم وادب کے حلقوں میں یہ خوشی کی بات ہے بیجنگ یونیورسٹی میں بلوچی اور پشتو زبانوں کیلئے شعبے قائم ہوچکے ہیں، اُردو زبان میں پہلے ہی سے ایک شعبہ قائم ہے۔ گوادر اقتصادی راہداری کے حوالہ سے صوبہ بلوچستان میں یورپی ممالک، سینٹرل ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے ممالک کی سربراہان اور ماہرین تعلیم کے دورے اچھنبے کی بات نہیں، گوادر اقتصادی راہداری کی کشش نے پورے پاکستان کواپنے لپیٹ میں لے لیا ہے