|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری پاناما لیکس کی درخواستوں کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحٰق ڈار کی معافی سے متعلق طلب کیا گیا ریکارڈ عدالت میں جمع کروادیا گیا۔ نیب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی اور معافی مل جانے کے بعد وہ ملزم نہیں رہے۔ یاد رہے کہ جمعہ (27 جنوری) کو کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے مؤکل نے 25 اپریل 2000 کو مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان کی تردید کردی ہے، جسے مخالفین کی جانب سے ثبوت قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے معاملے کو اہم قرار دیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان سے متعلق ریکارڈ طلب کیا تھا اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ عدالت کو اس بات سے آگاہ کریں کہ اسحٰق ڈار کا بیان معافی دینے کے بعد ریکارڈ کیا گیا یا پہلے؟ نیب ریکارڈ نیب کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے ریکارڈ میں بتایا گیا کہ اپریل 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے معافی کی درخواست دی گئی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل کو منظور کرلیا۔ جس کے بعد 24 اپریل 2000 کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی اور 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور انٹراکورٹ میں اسحٰق ڈار کی نااہلی کی درخواستیں خارج ہوئیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے خلاف دائر ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا تھا؟ جس پر شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا اس لیے معاملے کی سماعت ریفری جج نے کی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا؟ جس پر شاہد حامد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی تھی۔ جسٹس گلزار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کیا اس عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟ شاہد حامد نے انہیں بتایا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا اور عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے شاہد حامد کو ہدایت دی کہ وہ اپنے دلائل مکمل کرلیں، جس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب سے اس متعلق پوچھا جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا۔ شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہوگیا ہے اور اب صرف اس الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد ججز سن چکے ہیں، جس وقت ان کے مؤکل پر منی لانڈرنگ کا الزام تھا اس وقت وہ کسی عوامی عہدے کے مالک نہیں تھے۔ شاہد حامد نے عدالت کو مزید بتایا کہ نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحٰق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لیے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے۔ شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار حاصل نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا؟ جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا احتساب عدالت میں پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔ اسحٰق ڈار کے وکیل شاہد حامد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کا بیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے جواب دیا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد بیان اسحاق ڈار نہیں البتہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحٰق ڈار کے خلاف نااہلی کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26 کے تحت اسحٰق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر ججز کا کہنا تھا کہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے اور اسحاق ڈار کیس پر ڈبل جیوپرڈی کا اصول لاگو ہوگا۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کو اس کیس میں معافی کے بعد سزا نہیں ہوئی اور شاہد حامد سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ ایک شخص کا 2 مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مشرف دور میں رانا ثناء اللہ کا سر اور بھنویں منڈوا دی گئیں تھیں جبکہ انہوں نے کسی بینک یا مالیاتی ادارے کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا تھا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج تھا۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے دلائل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق دلائل کا سلسلہ شروع کردیا۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی جبکہ 20 اپریل کو اسحٰق ڈار نے معافی کی درخواست دی تھی۔ اس موقع پر عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے نیب کے اُس اجلاس کی تفصیل طلب کرلی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔ ساتھ ہی عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے اس بات کا جواب بھی طلب کیا کہ نیب، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر کیوں نہیں کی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے سوال کیا کہ کیا اسحٰق ڈار نے درخواست خود لکھی تھی؟ وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ پیش دوسری جانب وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی عدالت میں شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ جمع کروادیا۔ یاد رہے کہ 25 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے وزیراعظم کی جائیداد کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں، اور 27 جنوری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت سے جائیداد اور تحائف کی تقسیم سے متعلق تفصیلات جمع کرنے کے لیے پیر (30 جنوری) تک کا وقت طلب کیا تھا۔ حسین نواز کے وکیل کے دلائل شروع وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کیس کے تین پہلو ہیں اور وہ تینوں پہلوؤں پر دلائل دیں گے۔ سلمان اکرم راجا کے مطابق حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل مالک ہیں اور نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ الزام یہ ہے کہ حسین نواز بے نامی دار ہیں اور اصل مالک نواز شریف ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ جائیدادیں آپ کی ہیں اور نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں۔ سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا اور اگر کسی کے پاس حقائق ہیں تو سامنے لائے۔ جسٹس عظمت نے حسین نواز کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ آہستہ آہستہ کیس کو آگے بڑھائیں اور ججز کے ذہن کو اس حوالے سے کلیئر کریں۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کوئی جلدی نہیں۔ اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے سلمان اکرم کو کہا کہ جو کہانی آپ سنا رہے ہیں وہ پہلے بھی سنی جاچکی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ وہ صرف فیکٹری سے متعلق معاہدے پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے حسین نواز کے وکیل سے پوچھا کہ تقریروں اور بیانات میں دبئی، جدہ اور لندن کا ذکر تھا اور وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ ثبوتوں کا انبار ہے۔ سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ عدالت میں معاملہ چار فلیٹوں کا ہے۔ جسٹس عظمت کے مطابق طارق شفیع کے پہلے بیان حلفی میں ذکر نہیں کہ فیکٹری واجبات کیسے ادا ہوئے جبکہ دوسرے بیان حلفی میں طارق شفیع نے بتایا تھا کہ واجبات اقساط میں قطری شہزادے کو ادا کیے گئے۔ جسٹس عظمت نے سوال کیا کہ کیا اونٹوں پر لاد کر یہ رقم انہیں پہنچائی گئی تھی؟ جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ نقد رقم پر دنیا بھر میں کاروبار ہوتا ہے اور اس کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ جسٹس عظمت نے وکیل سے سوال کیا کہ جن سوالات کے جواب نہ آئیں تو ان کا کیا کیا جائے؟ اس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ مجھ سے حسن اور حسین نواز کے متعلق سوال کیا جائے۔ جس کے بعد کیس کی سماعت کو کل بروز منگل (31 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، جہاں حسن اور حسین نواز کے وکیل اپنے دلائل کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔