|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2017

وفاقی کابینہ نے صوبوں کی مشاورت کے بغیر محض دو افراد کی سفارش پر افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت کو 31مارچ2017تک توسیع دے کر یہ ثابت کردیا کہ اسکی نظر میں چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی کوئی اہمیت نہیں ۔اگر اہمیت ہے تو اس کے دو اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کی جن کے ووٹ بینک میں ان مہاجرین کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ جس کی بدولت اب یہ پارٹیاں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اضافی نشستیں لے کر اقتدار کے نہ صرف خود مزے لوٹ رہی ہیں بلکہ ان کے درجنوں ’’ بے روزگار‘‘ عزیز و اقارب مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات ہوکر سرکاری خزانہ سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔اس صورتحال پر اے این پی کے رہنماؤں نے گزشتہ سال پشین کے قریبی کلی شاگزئی مسے زئی میں شمولیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ خاندانی ایڈجسٹمنٹ کرپشن وکمیشن بنانے والوں کا کردار عوام کے سامنے ہے ۔ بقول ان رہنماؤں کے اس پارٹی کے ایم پی ایز نجی و سرکاری املاک پر قبضہ جیسے عمل کے مرتکب ہورہے ہیں ۔افغان مہاجرین کی کوئٹہ اور اندرون بلوچستان آبادکاری کے منفی نتائج آج ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں جس سے کسی صورت کوئی باشعور انسان آنکھیں نہیں چرا سکتا کیونکہ آج سے چالیس سال قبل بلوچستان اور خصوصاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ان افغان مہاجرین کی آباد کاری جس بڑے پیمانے پر ایک منصوبے کے تحت ہوئی اس طرح کی مثال کسی بھی ملک میں دیکھنے میں نہیں آتی ۔ آسٹریلیا سمیت یورپی ممالک میں مہاجرین کو ان ملکوں کا حصہ نہ بنانے کی پالیسی پر سختی سے عمل جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران سمیت تمام یورپی ممالک میں ان غیر ملکی مہاجرین کو کیمپوں میں رکھ کر ان کی با قاعدہ رجسٹریشن کی گئی ہے جہاں ان کے نقل و حرکت پر کڑی نگاہ بھی رکھی جاتی ہے بلکہ انہیں کیمپوں سے باہر جانے کی بھی آزادی حاصل نہیں ۔ آج ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو ہمارا پورا نظام درہم برہم نظر آتا ہے ۔ افغانستان کے مہاجرین سرخاب اور چآغی کے کیمپوں میں شروع کے دنوں میں لا کر آباد کرائے گئے آج ان کیمپوں کو نہ صرف مستقل کردیا گیا بلکہ ان سمیت لاکھوں افغانی باشندے ملک کے طول و عرض سمیت بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے چاروں اطراف میں آباد کردئیے گئے ان میں دوتانی ‘ خلجی ‘ بڑیچ ‘ نورزئی ‘ بادیزئی ‘ درانی ‘ الکوزئی ‘ سلمان خیل ‘ اچکزئی ‘ علیزئی ‘ ناصر ‘ ناخیل ‘ ملاخیل‘ خروٹی، بوگری ‘ہزارہ ‘ تاجک ازبک اور دیگر اقوام کے باشندے لاکھوں کی تعداد میں کوئٹہ کے گردونواح میں آباد ہیں ۔ ان آبادیوں کوواضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ان غیر ملکیوں کی تعداد لگ بھگ 25لاکھ کے قریب بنتی ہے جو کہ کوئٹہ سمیت ملک کے طو ل و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی تمام بڑے بڑے شہروں میں رہائش غیر قانونی ہے ۔ جبکہ انہوں نے ہمارے قوانین کی کمزوری کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں اربوں روپوں کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں بلکہ وہ ان شہروں میں کھلے عام کاروبار کرتے بھی ہیں بلکہ منشیات کی اسمگلنگ اوردوسرے غیر قانونی کاموں میں بھی ملوث ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ضلع چاغی میں آٹھ لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو سرکاری دستاویزات جاری کیے جا چکے ہیں چاغی جس کی اپنی آبادی صرف ڈیڑھ لاکھ ہے لیکن یہاں سے لگ بھگ آٹھ لاکھ افغان مہاجرین کو لوکل دستاویزات جاری کیے گئے ہیں جن کی منسوخی کے لئے ڈسٹرکٹ کونسل میں قرار داد تک منظور کی جا چکی ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ‘ یعقوب بلوچ کے بیانات کے مطابق موجودہ حکمرانوں کے دور میں جنہیں اقتدار پر براجمان کیا گیا ہے انکی کوشش ہے کہ توسیع پسندی کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو بلوچستان بھر میں آباد کیا جائے اور اس کے لیے صوبائی حکومت اپنے وقتی مفادات کی خاطر ان کی مکمل سرپرستی کررہی ہے یعنی ان مہاجرین کوشناختی کارڈ غیر قانونی اور جعلی طریقے سے اب بھی جاری کیے جا رہے ہیں ۔ سابق صوبائی وزیر نوابزادہ لشکری رئیسانی کے بیان کے مطابق ان مہاجرین کی طرف داری سے شاونسٹ ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے ان کے بقول پاک افغان تعلقات کی بہتری میں مہاجرین بڑی رکاوٹ ہیں ان کی حمایت میں بولنے والے پشتونوں کو یہ بات نہیں بھولنی چائیے کہ ان کی موجودگی سے چند ایک پارٹیوں کو فائدہ تو ہے لیکن خود مقامی پشتونوں کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا بلکہ پہنچ رہا ہے ۔ بی این پی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے بقول ان افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے بلوچستان سماجی و معاشی مسائل سے دو چارہے ۔ یہ نہ صرف مقامی آبادی بلکہ بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ثابت ہورہے ہیں بلوچستان کے عوام تیس چالیس سالوں سے ان کی مہمان نوازی کررہے ہیں اب انہیں با عزت طریقے سے واپس ان کے اپنے ملک افغانستان بھیجا جائے ۔ خانوزئی اولس کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ افغانستان میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوگئی ہے لہذا حکومت کوچائیے کہ وہ بلا تاخیر تمام افغان مہاجرین کو اپنے وطن بھجوائے جبکہ ان کی یہاں ایک نسل بھی جوان ہوچکی ہے ان مہاجرین نے لوکل آبادی کیلئے طرح طرح کے مسائل پیدا کئیے ہیں انہوں نے مختلف علاقوں سے شناختی کارڈ‘ لوکل سرٹیفیکٹس حاصل کرکے جائیدادیں بھی بنالی ہیں اور وہ ملک بھرمیں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے مقامی لوگوں کا کاروبار متاثر اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما عبدالحلیم جوگیزئی نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ افغان مہاجرین کے نام پر سیاست کرنے والے قوم پرست پارٹیوں کی اپنی ہی صفوں میں افغان مہاجر ہیں جو انہیں اپنے ووٹ بینک کی خاطر استعمال کرر ہے ہیں جو ملک کے مفاد میں نہیں ۔قوم پرست پارٹیاں 1980ء سے لے کر اب تک افغان مہاجرین کو سپورٹ کررہی ہیں۔ کاکڑ جمہوری پارٹی کے ضلعی صدر عبدالستار کاکڑ ‘ صوبائی رابطہ کمیٹی کے ممبر صورت خان کاکڑ ‘ کمانڈر نصیر الدین کاکڑ ‘ ملک رحیم کاکڑ اور محمد اشرف کاکڑ نے اپنے ہنگامی پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ حکومت افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کرکے کاکڑ اقوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کررہی ہے جو قابل مذمت ہے انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے مردم شماری میں مسئلہ درپیش ہوگا مستقبل میں افغان مہاجرین ہمارے اور ہمارے بچوں کے حقوق پر قابض ہوں گے ۔ ژوب قومی جرگہ کے رہنماؤں اختر شاہ مندوخیل ‘ نورمحمد ‘ ارسلا خان مندوخیل ‘ اور مولاداد بابڑ نے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ غیر مقامی افراد کو ملک سے نکالا جائے انہوں نے کہا کہ 1947ء میں جو لوگ پاکستان آ کر آباد ہوئے ہیں وہ سب مقامی ہیں جبکہ اس کے بعد وقفے وقفے سے آنے والے غیر مقامی اور مہاجرین ان سب کو نکالا جائے بلوچستان بھر میں امن وامان کی ابتر صورت حال بڑی وجہ بھی یہی غیر مقامی لوگ ہیں جو اسلحہ اور منشیات کے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ چیف آف مندوخیل سردار محمد ایوب مندوخیل کے بیان کے مطابق ملک اور صوبہ میں بدامنی کی وجہ افغان مہاجرین ہیں جو مختلف اوقات میں پاکستان اور افغانستان آمد و رفت کے دوران دہشت گردی ‘ اغواء برائے تاوان جیسی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کی بڑی تعداد نکل چکی ہے ، جمہوری حکومت کے قیام کو عرصہ ہوچکا ، خود افغان حکومت بھی افغانوں کو اپنے وطن آنے کیلئے کہہ چکی ‘ مگر اس کے باوجود ان کا یہاں رہنا باعث تشویش ہے ۔ کاریزات پشین کے ایس بی تھیلہ سیمیا اینڈ ویلفئیر سوسائٹی کے چئیرمین احمد خان کاکڑ کے مطابق علاقہ کے معتبرین کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں مقررین عبید اللہ کاکڑ‘ محمد سرور ‘ عظمت اللہ ‘ سعد اللہ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو سرخاب کیمپ منتقل کیاجائے ،ان کی و جہ سے سارا علاقہ خصوصاً مرغہ زکریازئی‘ نیو کاریز ‘ متین نگاندہ ‘ ساگئی ‘ شرن عمر زئی ‘ لنڈی کاریز اور ناین کے لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں ان مہاجرین نے پہاڑی جنگلات کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کی وجہ سے علاقے میں زراعت پر بھی برا اثر پڑا ہے ۔ اور چوری ‘ رہزئی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوچکا ہے۔ لورالائی کے ممتاز قبائلی اور سماجی رہنما سردار حبیب الرحمن لونی اور ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر اور قبائلی شخصیت محمد زمان کدیزئی نے اپنے بیان میں حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کی بجائے ان کو فوری طورپر ان کے وطن واپس بھیجا جائے کیونکہ اب افغانستان کے حالات بہتر ہوچکے ہیں اب پاکستان بھی ان کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اگر حکومت نے انکو بھیجے بغیر مردم شماری کروانے کی کوشش کی تو ہم سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاج کریں گے کیونکہ یہ ہماراا ور ہمارے آنے والی نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے ۔ نیشنل پارٹی حقیقی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری بلوچستان کے عوام کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہو گی ۔ بلوچ قوم اپنی بقاء اور تشخص کو مسخ کرنے کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دے گی ۔ ژوب قومی جرگہ کے چئیرمین اختر شاہ مندوخیل ‘ قدم جان کاکڑ اور دیگر کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کے ہوتے ہوئے ہم مردم شمار ی کی مخالفت کرتے ہیں مردم شماری افغان مہاجرین کے انخلاء تک روک دی جائے ۔ ان کے قومی شناختی کارڈ ‘ لوکل سرٹیفکٹس منسوخ کرکے انہیں ملازمتوں سے بر طرف کیاجائے کیونکہ ژوب ڈویژن میں ہر افغان کے پاس قومی شناختی کارڈ اورلوکل سرٹیفکیٹ موجود ہے ۔ ان کے مطابق حکومت ان کو نکالنے میں مخلص نظر نہیں آتی بلکہ انہیں نوازاجارہا ہے۔ جن کی پشت پناہی حکومت کے بعض کارندے ‘ سیاسی جماعتیں کررہی ہیں ایک طرف افغان مہاجرین ہیں تو دوسری طرف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگ ہیں جو جعلی ڈگریوں اور ڈومیسائل کے ذریعے ہمارے حصے کی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔ ان پشتون شخصیات سمیت بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے بیانات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ افغان مہاجرین نہ صرف ہماری معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ کوئی بڑا شہر یا صوبہ ان سے محفوظ نہیں۔ خونی واردتوں اور دھماکوں کے بعد صوبائی حکومتیں اور ایجنسیاں فوراً حرکت میں آ کر معمولی نوعیت کے اقدامات کرتی ہیں جبکہ طویل عرصہ کی منصوبہ بندی نہیں کرتیں ان مہاجرین کی مردم شماری سے قبل انخلاء بے حد ضروری ہے جس کے بارے میں بلوچستان کے مقامی لوگ شدید مضطرب بھی ہیں جس میں حقیقت بھی ہے کہ ان کی موجودگی میں مردم شماری کا عمل بلوچ اور پشتون قوم کے درمیان چپقلش کا باعث بنے گی۔ حکومت کو چائیے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر چھوٹے صوبوں کے عوام کے خدشات کے مطابق فیصلے کرکے انہیں مطمئن کرے اور فوری طورپر غیر ملکی مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرکے ان کا وارث بننے کا رویہ ترک کر دے کیونکہ ان کی گزشتہ چالیس سالوں سے مہمان نوازی کرتے کرتے ملک کی نہ صرف سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں بلکہ ان کی موجودگی سے ملک کی معیشت کو اب تک 104ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ یہ بات گزشتہ سال قومی اسمبلی میں وزیر ریاستیں و سرحدی علاقہ جات لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بتائی ان کے مطابق ملک بھر میں 14لاکھ 70ہزار افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے بڑی تعداد افغان پناہ گزینوں کی ہے جو دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔ مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں نے تیس لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دی لیکن افغان مہاجرین اسمگلنگ اور دہشت گردی میں پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں پاکستانیوں نے ان غیر ملکیوں کو اپنے دستر خوان پر بٹھا کر جو خود کھایا وہی اپنے مہاجر بھائیوں کو کوکھلایا۔ افغان مہاجرین کی شکل میں طالبان کو پاکستان میںآسان پناہ گاہیں مل جاتی ہیں ۔ مہاجرین میں اکثریت پاکستان میں اسمگلنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہورہی ہے ۔ جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کسی صورت قبول نہیں کریں گے کیونکہ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کا مقصد اکثریت کو اقلیت میں بدلناہے ۔ حکومت مردم شماری سے قبل مہاجرین کا انخلاء یقینی بنائے۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی ، رکن قومی اسمبلی سردار کمال خان بنگلزئی اور رکن صوبائی اسمبلی یاسمین نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے انخلاء تک مردم شماری قبول نہیں ایک سازش کے تحت افغان مہاجرین کو صوبے پر مسلط کرکے ہماری آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ نے ایک شمولیتی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہ صرف افغان مہاجرین کی نہیں بلکہ تمام غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف ہیں ان کی موجودگی میں مردم شماری کی بھر پور مخالفت کریں گے کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم افغان مہاجرین کے خلاف ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ ہمارے خلاف گھناؤنا پروپیگنڈہ ہے۔ آج خود پشتون علاقے بھی ان مہاجرین کی وجہ سے متاثر ہیں جس کا اظہار خود پشتون علاقوں کے رہنما کررہے ہیں جب تک دس لاکھ بلوچوں کو جو مشرف دو رحکومت میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باعث اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ، انہیںآباد نہیں کیا جاتا ، ہم مردم شماری کی حمایت نہیں کریں گے ان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج کرپھر صاف و شفاف مردم شماری کی جائے جس کی ہم حمایت کریں گے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تربت میں سینیئر باڈی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیراعلیٰ انہوں نے تین مرتبہ سی سی آئی میٹنگ میں مردم شماری کی مخالفت کی تھی اور آج بھی ہمارا موقف ہے کہ افغان سمیت تمام غیر ملکیوں کی موجودگی میں نیشنل پارٹی مردم شماری کو قبول نہیں کرے گی ہم اس معاملہ پر سپریم کورٹ جائیں گے ۔نیشنل پارٹی کے نائب صدر میر طاہر بزنجو کے بقول افغان مہاجرین ہمارے مہمان بن کر آئے تھے اور ہم نے ان کی عزت کرتے ہوئے انہیں احترام دیا اب انہیں واپس اپنے ملک جانا چائیے نیشنل پارٹی کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کہ کسی غیر ملکی کو ووٹ کا حق دیا جائے اور نہ ہی ان افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے فیصلے کو قبول کریں گے ۔ بلوچستان متحدہ قبائل علماء ونگ کے رہنماؤں ملا علی احمد شاہوانی ‘ قاری شہباز زہری ‘ مولوی امان اللہ شاہوانی نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ افغان چاہے بلوچ ہو یا پشتون ‘ ازبک ‘ ہزارہ ‘ ترکمن ‘ تاجک کو فوری طورپر ان کے ملک افغانستان منتقل کیاجائے۔ افغان مہاجرین مقامی لوگوں کے بنیادی شہری حقوق انسانی ملکی بین الاقوامی قوانین میں دئیے گئے حقوق یعنی حقوق العباد کی خلاف ورزی کررہے ہیں یہ لوگ کیمپوں کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہوئے ہیں اور کاروبار شروع کررکھا ہے جعلی پاکستانی شناختی کارڈبنوا رکھے ہیں جو کہ خود دھوکہ دیہی کا عمل ہے ۔ یہ بڑا گناہ بھی ہے ۔ ان جعلی شناختی کارڈوں اور دیگر جعلی اسناد کے ذریعے وہ مقامی لوگوں کے حقوق سلب کرنے کا موجب بن رہے ہیں ساتھ ساتھ زمینوں پر قابض ہو کر جائیدادیں بنا رہے ہیں ۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر و چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے منتقلی اختیارات میر کبیر احمد محمد شہی نے کہا ہے کہ ہم 1980ء سے ہی رونا رو رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کیاجائے مگر افسوس کہ مہاجرین کو نہ صرف شناختی کارڈ جاری کیے گئے بلکہ قومی شناخت بھی دے دی گئی ۔ نادرا حکام بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بھاری رقم کے عوض تقریباً پانچ لاکھ مہاجرین کو شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں ان کے بقول ذاتی مفادات اور رقم کے بدلے جعلی شناختی کارڈ بنانے والوں کو تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ یہ قومی غدار ہیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر پرنس موسیٰ جان نے کہا ہے کہ مردم شماری کے حوالے سے قبائلی وسماجی عمائدین سے رابطے میں ہیں تاکہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے حوالے سے بلوچ عوام کے خدشات سے انہیں آگاہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نامساعد حالات کے پیش نظر دس لاکھ کے قریب بلوچ سندھ پنجاب نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین سرکاری دستاویزات حاصل کر چکے ہیں اب انہیں مردم شماری کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔ بی ایس ایف کے ترجمان کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے خلاف بلوچ سیاسی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بلوچ قوم کے تشخص اور سلامتی کا مسئلہ ہے ترجمان کے مطابق ایک نسل پرست جماعت اور بعض مذہبی جماعتوں کی جانب سے صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے مہاجرین کی حمایت کی جارہی ہے جو بلوچ قوم کے ساتھ پشتون اقوام کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے ۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی ‘ صوبائی صدر سابق اسپیکر کہدہ محمد اکرم دشتی اور دیگر نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مردم شماری کے بارے میں ہماری پالیسی واضح اور بلوچ قوم کی امنگوں کے مطابق ہے نیشنل پارٹی نے ساحل ووسائل اور بلوچ مفادات کا سودا کیا ہے اور نہ ہی کرے گی بلکہ بلوچ عوام کی ترجمانی اور ان کے حقوق کا دفاع کررہی ہے ۔ درج بالا بیانات بلوچستان کی ان قدآور شخصیات کی ہیں جن میں سیاسی و قبائلی عمائدین شامل ہیں ‘انہوں نے افغان مہاجرین کی موجودگی کو سراسر مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے حالات کافی حد تک بہتر ہوگئے ہیں لہذا ان غیر ملکی مہاجرین کو فو ری طورپر واپس بھجوایاجائے تاکہ یہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن سکیں لیکن یہ بات بھی ان بیانات سے ظاہر ہوئی کہ بلوچستان میں موجودایک نسل پرست جماعت سمیت چند ایک مذہبی جماعتوں کے پشتون رہنماء اپنے بیانات میں افغان مہاجرین کا ذکر نہیں کرتے اور محض اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ مردم شماری کو رکوانے کا عمل درست نہیں صوبوں کے وسائل کا تعین نہ ہونے سے بلوچستان کا حصہ کم پڑے جائے گا یہ سراسر بلوچستان کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہوگا وغیرہ وغیرہ ‘ یہاں چند ایک پشتون سیاسی و دینی جماعتوں سے وابستہ افراد کے بیانات قلمبند کیاجارہے ہیں ۔ قارئین خود اندازہ لگائیں کہ دین پر عمل پیرا افراد کس طرح دروغ گوئی کا سہارا لے کر محض مردم شماری کرانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ ان افغان مہاجرین سے جن کے پاس جعلی طریقے سے بنائے گئے شناختی کارڈ آنے والے انتخا بات میں ایک بار پھر کام آسکیں جس طرح 2013ء کے انتخابات میں اس کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا کوئٹہ کی صوبائی نشستوں سمیت کوئٹہ چاغی کی قومی اسمبلی کی نشست پر جس طرح شب خون مار کر ووٹوں کی پیٹیاں بھریں گئیں، آج ہر شخص اس بات کا معترف ہے کہ یہاں ایک زبان بولنے والوں کو اقلیت میں نہ ہونے کے باوجود اکثریت دلوا کر حکومتی ایوانوں میں پہنچایا گیا ۔ پشتون رہنما بیانات دے کر افغان مہاجرین کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کرکے نہ صرف صوبہ دشمنی کا مرتکب ہورہے ہیں بلکہ دین پر چلتے ہوئے بھی جھوٹ بول کر حقائق جھٹلا نے کی کوشش کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی ناکام کوشش کرکے بلوچستان کی اکثریتی قوم جس کے نام سے یہ بلوچستان قائم ہوا ‘ کو رد کرناچاہتے ہیں ۔ان بیانات میں جمعیت نظر یاتی ضلع کوئٹہ کے امیر قاری میر اللہ‘ جنرل سیکرٹری آغا ابراہیم شاہ ‘ مولانا سراج دین ‘ مولانا عبدالرحیم ‘ حاجی داد محمد ‘ نادر خان اچکزئی ‘ حاجی نور محمد ‘ اخونزادہ عبید اللہ ‘ مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر اور صوبائی وزیر شیخ جعفر مندوخیل ‘ صوبائی وزیر عبدالمجید اچکزئی ‘ اے این پی کے صدر اصغر خان اچکزئی ‘ رکن صوبائی اسمبلی زمرک خان اچکزئی ‘ سینیٹر حافظ حمد اللہ ‘ سابق اسپیکر ملک سکندر ایڈووکیٹ، اپوزیشن لیڈرمولاناعبدالواسع ‘ جمعیت نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی ‘ سید عبدالستار چشتی ‘ سردار صلاح الدین شامل ہیں ’ جو شدت کے ساتھ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بلوچستان میں مردم شماری ہونی چائیے ۔کوئی رہنما اسے بلوچ پشتون اقوام کے درمیان سازش قرار دے رہا ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ گزشتہ ادوار میں پشتون قوم پرست پارٹی نے بائیکاٹ کرکے صوبے کو شدید نقصان پہنچایا اب نئی مردم شماری میں افغان مہاجر کے نام پر اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔ مولانا عبدالواسع صاحب تو اس قدر کہہ گیا کہ مردم شماری کے بغیر وسائل کا مطالبہ بڑی غلطی ہوگی مردم شماری ہر صورت میں ہونی چائیے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اس کا بائیکاٹ کرنے والا یا عدالت میں جانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی بوگس اندراج کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صوبے میں پشتونوں اور بلوچوں کی برابری یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان کے اور ان کی پارٹی کی جانب سے تواتر کے ساتھ بلوچ اور پشتون اقوام کو برابر قرار دینے کی خود ساختہ رٹ لگا کر وسائل کی برابری کی بنیاد پر تقسیم پر بھی زور دی جارہی ہے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما ممبر قومی اسمبلی شیخ الحدیث مولانا آغا محمد مردم شماری کے حوالے سے اپنے ’’ زریں خیالات‘‘ سے کچھ اس طرح ہمیں نوازتے ہیں کہ پاک شفاف مردم شماری ہونے سے بلوچستان کی محرومی میں کمی کا امکان ہے ۔ سابقہ ادوار میں بائیکاٹ کرکے پشتون علاقوں کے عوام بہت سے وسائل سے محروم رہ گئے‘ بقول ان کے جمیعت کے اکابرین نے صوبے کے حقوق کی ہمیشہ بات کی ہے ۔ یہاں ہم شیخ الحدیث کے بیان کو غور سے پڑھیں تو انہوں نے بھی ’’ پشتون وال ‘‘ بن کر بیان داغتے ہوئے بلوچستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کے بارے میں لب کشائی نہیں کی اور یہ تک نہیں بتایا کہ نادرا بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے مختلف دفاتر سے ایف آئی اے کتنے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو گرفتار کر چکی ہے ۔ جنہوں نے لاکھوں افراد کو بھاری رقم لے کر نہ صرف شناختی کارڈ بنائے بلکہ ان کے دستاویزات مکمل نہ ہونے کے باوجود بنوا کر دئیے ۔ گرفتار ہونے والوں نے قومی جرم کا ارتکاب کیا ان کے نام یہ ہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر زون منظور بگٹی ‘ انٹیلی جنس آفیسر نادرا نثار ہزارہ ایجنٹ عزت اللہ ‘ 31مارچ 2016کو ایف آئی اے نے افغان اور ایرانی باشندوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے والے نادرا کے دو افسران سمیت پانچ ملازمین کو دھر لیا ۔ گرفتار ہونے والوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مظہر اور نثار احمد ‘ دو ڈیٹا انٹری آپریٹرز کاشف اور عرفان ‘ نائب قاصد وحید شامل تھے جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر موقع سے فرار ہوگئے ۔ذرائع نے بتایا کہ گرفتار ملازمین نے سینکڑوں کی تعداد میں غیر ملکیوں کو کروڑوں روپے میں شناختی کارڈ بنا کر دئیے ۔ جبکہ 2016ء میں نوشکی کے قریب امریکی ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر اختر منصور کو ہلاک کیا گیا ۔ جسے ولی محمد کے نام سے تصدیق کرکے شناختی کارڈ بنا کر دیا گیا تھا اس میں بھی چمن انتظامیہ کے افسران کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی ۔ 18مئی 2016ء کو ایف آئی اے نے افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ بنانے کے الزام میں ائیر پورٹ روڈ پر نادرا آفس ویریفکیشن سینٹر سے ڈپٹی ڈائریکٹر اکرام اللہ ‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد یوسف کرد کوگرفتار کیا ان گرفتار ہونے والے اہلکاروں کی تعداد سات تھی جن میں قلعہ عبداللہ اور چمن کے دو اسسٹنٹ کمشنروں سمیت لگ بھگ 15افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ۔ ایک اور چھاپے میں نادرا کے پانچ افسران گرفتار کیے گئے یہ افسران ریکارڈ غائب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں دھر لیے گئے تھے ۔ان تمام حقائق کے باوجود کہ افغان مہاجرین جن کی تعداد لاکھوں ہے وہ کھلے عام نہ صرف ملک کے طول و عرض میں گھوم پھر سکتے ہیں بلکہ انہوں نے جعلی کاغذات کے ذریعے نہ صرف کروڑوں اربوں روپوں کی جائیدادیں بنائی ہیں بلکہ انہوں نے چند سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کی بدولت ووٹر ز لسٹوں میں بوگس اندراج تک کرائے ہیں اور اب وہ افغان مہاجرین نہیں بلکہ ’’بلوچستانی‘‘ ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پشتون قوم پرستوں سے لے کر ان کے ملاؤں تک نے بیک آواز مردم شماری کے بیانات داغنا شروع کرکے بلوچوں پر اپنا غصہ نکالنا شروع کردیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ مردم شماری کی کیوں مخالفت کی جارہی ہے وہ جان بوجھ کر ان لاکھوں افغان مہاجرین کے قیام اور ان کی مکمل سکونتی کاغذات کی موجودگی کو نظر انداز کرکے بے ضمیری کا ثبوت دے رہے ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا کیونکہ ووٹر لسٹوں میں اندراجات سے وہ ملک کے شہری قرار دئیے جا چکے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر ہونے والی مردم شماری میں مزید اندراجات ہوں گی ان غیر ملکیوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے جسے تردید ی بیانات سے چھپایا نہیں جا سکتا ۔بہر حال یہ بات اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ بلوچستان کی اکثریتی آبادی یقینی بلوچوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے عدالتوں کے درواے کھٹکٹھانے کی بات کی جارہی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے جو موجودہ صوبائی حکومت میں بھی شامل ہے‘نے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے تاکہ ان افغان مہاجرین کے انخلاء کے بعد مردم شماری کرائی جا ئے تاکہ حقیقی معنوں میں مردم شماری کا عمل مکمل ہو ورنہ ان کی موجودگی میں مردم شماری سے اکثریتی قوم کو اقلیت میں بدلنے کا کھیل کھیلا جائے گا جسے بلوچ سیاسی پارٹیاں اور بلوچ قوم کسی صورت نظرانداز نہیں کر سکتی ’ اگر انہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو ان کی نہ صرف سیاست بلوچ قوم کے سامنے زندہ دفن ہوجائے گی ۔یہ کسی قوم کی موت و زیست کا سوال ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مقتدر قوتیں بغض معاویہ میں ایسا کرنے کا خیال اپنے دلوں میں لائیں ورنہ اس کے انتہائی خطرناک اور منفی نتائج برآمد ہوں گے مستقبل میں اس کی ملکی سالمیت پر جس طرح منفی اثرات مرتب ہوں گے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا کس طرح ایک قوم کے مفادات جس کے نام سے ایک صوبہ وجود رکھتا ہے آج ستر سال گزرنے کے بعد اس قوم کو اپنے ہی صوبے میں اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کرنے کا سوچا جارہا ہے ۔یہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے یا نظر انداز کیا جا سکتا ہے اس پر سنجیدگی سے غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا عمل ہی کیوں کیاجائے جس سے قوموں کے درمیان تلخیاں پیدا ہوں ۔ کیا ہمارا ملک ان تلخیوں کا متحمل ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم تمام تر حقائق کے باوجود بحیثیت ایک قوم نہیں بن پارہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔ افغان مہاجرین کی بلوچستان میں بڑے پیمانے پر موجودگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔یہ کیمپوں سے نکل کر کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہروں میں آباد ہوگئے ہیں بلوچستان میں لگ بھگ 12اضلاع میں یہ آباد ہوگئے ہیں سابق صوبائی وزیر اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنما سید احسان شاہ کے مطابق مردم شماری کو افغان مہاجرین کے انخلاء سے مشروط کیاجائے اور اسے چھ سات ماہ تک ملتوی کیاجائے ، اگر ایسا نہ کیاگیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلوچ قوم کے خلاف سازش ہوگی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے حالیہ دنوں میں یہ بیان کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد واپس جا چکی ہے، مردم شماری ضرور ہوگی کو سن کر شدید تکلیف پہنچا کہ وزیراعلیٰ کس طرح حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں ، کیاانہیں بلوچ قوم کے جذبات کا احساس ہے، اگر نہیں ہے تو وہ پھر کس طرح ایک عوامی رہنماء ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، صرف اپنے اتحادی جماعت کو خوش کرنے کے لیے بلوچ قوم کا نمائندہ بن انہی کے مفادات کے خلاف بیان داغنا اور جاناکم از کم بلوچوں کا ہمدرد ہر گز نہیں ہوسکتا۔اور یہ کس نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ تمام مہاجرین واپس چلے گئے ہیں ، ان لاکھوں مہاجرین کو تو چھوڑئیے جو بغیر اندراج کے صوبے میں مزے سے رہ رہے ہیں، ان پانچ لاکھ مہاجرین میں سے کتنوں کو یہاں سے واپس بھیجا گیا جنہوں نے شناختی کارڈ بنا رکھے ہیں، شاید کوئی بھی نہیں کیونکہ جب حکمرانوں کا انہیں واپس بھیجنے کی نیت نہیں تو وہ کیونکر جائیں ۔بی این پی کے رہنما آغاز حسن کے بیان کے مطابق اگر افغان مہاجرین واپس چلے گئے ہیں تو ان کے انخلاء میں ایک سال کی توسیع کیوں کی گئی۔ وفاقی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق تیس لاکھ افغان مہاجرین ملک میں موجود ہیں ۔ بلوچستان میں پانچ لاکھ مہاجرین کے خاندانوں نے شناختی کارڈ حاصل کیا ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین سے متعلق آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ نے بی این پی کے موقف پر مہر ثبت کردی ہے۔ کل تک ہمارے حکمران یہ کہتے تھے کہ بلوچستان سے افغان واپس جا چکے ہیں جبکہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اب بھی پچیس لاکھ مہاجرین موجود ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ بلوچ حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنی سیاسی اتحادی جماعت کی خوشنودی کی خاطر من گھڑت دعویٰ کررہے ہیں عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ سے بہت سی باتیں واضح ہوگئیں کہ ہمارے حکمران غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے الگ الگ دنوں میں پریس کانفرنسز میں تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری نہ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا کیونکہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری سے مزید پیچدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ ہمارا 1980ء سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ تارکین وطن چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں انہیں ان کے ملکوں کو واپس بھیجا جائے یہی موقف صوبے کی دیگر قوم پرست جماعتوں کا بھی ہے۔ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مردم شماری ملتوی کی جائے اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک کا بھی یہی موقف ہے ان کے بقول انہوں نے حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں واضح موقف اختیار کیا تھا کہ تارکین وطن کی موجودگی میں کسی صورت مردم شماری ہی نہیں ہونی چائیے۔بلوچستان میں علاوہ ازیں ایک بڑا مسئلہ مزاحمت کے باعث پیدا شدہ صورت حال بھی ہے جس کی وجہ سے مکران ڈویژن ‘ کوہلو‘ ڈیرہ بگٹی ‘ آواران سمیت مختلف علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں عوام اپنے گھروں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ایسے میں مردم شماری ہونے سے بلوچستان میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی اس سلسلے میں نوابزادہ لشکری رئیسانی تمام جماعتوں اور معتبرین کا جرگہ بلا رہے ہیں جس میں نیشنل پارٹی بھی شرکت کرے گی ہم نے سینٹ میں بھی مردم شماری نہ کرانے کا مسئلہ اٹھایا ہے اور بلوچستان اسمبلی میں بھی اس مسئلے کو اٹھائیں گے ۔