|

وقتِ اشاعت :   February 4 – 2017

نہ ہی میں کوئی بڑا کالم نگار ہوں اور نہ ہی مجھے الفاظ کا اتار چڑھاؤ آتا ہے مگر آج ایک لفظ نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔وہ ایک لفظ لکھنے پڑھنے اور بولنے میں بلاشبہ بہت چھوٹا ہے مگر اس لفظ نے بہت بڑی بڑی معیشتوں اور بڑی بڑی حکومتوں کو زوال پذیر کیا ہے وہ ایک لفظ جسے ہم کرپشن یعنی بدعنوانی کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بد عنوانی کسے کہتے ہیں۔جے ،ایس ،نائے کے بقول”بدعنوانی ایک ایسا رویہ ہے جو کہ کسی شخص کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے سرکاری فرائض کی ادائیگی سے دور لیجائے اور اس پر اپنا انفرادی فائدہ حاوی ہوجائے اس میں رشوت ،اقربہ پروری،سفارش اور مالی بے ضابطگیوں جیسے رویے شامل ہیں” ہمارے معاشرے میں بدعنوانی ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ہمارے یہاں کرپشن کا یہ حال ہے کہ ہمارے بزرگوں تک کو نہیں چھوڑاگیا۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک محکمہ میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پنشن کے لیئے ہمارے بزرگ حضرات لائن میں کھڑے تھے۔اُن میں کچھ ایسے تھے جو ضعیف العمری کی وجہ سے ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہوپارہے تھے ایک بزرگ کو میں نے کچھ بڑ بڑاتے سنا تو ان سے پوچھا کہ “با با جی کیا ہواآپ غصے میں لگ رہے ہیں توبہت ہی تلخ لہجہ میں کہنے لگے کہ بیٹا “میں ایک ہفتے سے کچھ ہزارروپوں کی پنشن کیلئے اس دفتر جس میں میں نے چالیس برس ملازمت کی ہے کے چکر لگا رہاہوں مگر ہر روزیہ لوگ کچھ نہ کچھ بہانہ کرکے مجھے ٹال دیتے ہیں اب بتاؤ کہ میں کس کے پاس فریاد لے کے جاؤں جہاں میرے اپنے محکمے والے ہی مجھے میر ے ہی پیسوں کیلئے تنگ کررہے ہیں”تو جناب اعلیٰ اس بزرگ کی ان باتوں نے میری بھی آنکھیں نم کردیں اور دل اُچاٹ سا ہوگیا۔ سرکاری نوکری اور سرکاری محکموں سے کہ کیوں ہمارے معاشرے میں ہمارے اپنے سینئر لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتاہے؟ یہاں میں روس یعنی سوویت یونین کی مثال دینا چاہوں گا سوویت یونین دنیا کاوہ ملک تھا جہاں تعلیم،روزگار،امن اور انصاف سو فیصد تھا نہ تو وہاں کوئی بھکاری ملتا تھا اور نہ ہی کوئی عصمت فروش مگر پھر وہاں بدعنوانی نے جنم لینا شروع کیا ہماری طرح وہاں کی بھی سوسائٹی کرپٹ ہوتی چلی گئی اور بالآخر سوویت یونین اس مقام پر پہنچا کہ جہاں ایک روبل کے دوڈالر ملا کرتے تھے وہاں ایک ڈالر کے پانچ ہزار روبل ملنے لگے اور دنیا بھر کے قحبہ خانے روسی خواتین سے بھر گئے اور ماسکو میں سوویت یونین کے فوجی میڈلز کے ساتھ یونیفارم میں بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب بدعنوانی کی مہربانیاں ہیں جو روس پر ہورہی ہیں اسی طرح چائنا کی اگر ہم مثال لیں کہ چائنا نے بدعنوانی پر کیسے قابو پایا تو اسکی بھی مثال دینا چاہوں گا کہ جب چین نے 20سال قبل کرپشن سے ملک کو پاک کرنے کا فیصلہ کیا تو چین نے ملک میں کرپشن کی سزا موت کو بنا دیا تو اسکے بعدسب سے پہلے ملک کے سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنا شروع کیا چین کے وائس ایڈمرل وینگ شوئی صد ر جیانگ زی من کے انتہائی قریبی دوست تھے پولیس نے جب ان کے گھر سے 20ملین ڈالر برآمد کیئے تو صدر نے خود اپنے انتہائی قریبی دوست کے موت کے پروانے پر دستخط کردیئے ۔کمیونسٹ پارٹی سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو کرپشن کی وجہ سے سیاست سے فارغ کیاگیا ۔ایک لاکھ لوگوں کو سزا بھی ہوئی بینک آف چائنا کے صدر کو کرپشن کی وجہ سے گولی ماردی گئی تھی ۔اسکے بعد سرکاری افسروں کا احتساب شروع ہوا جن افسران پر کرپشن ثابت ہوئی انہیں گولی ماری گئی احتساب کے اس عمل نے چین کو دنیا کا معاشی سپر پاور بنادیا ہے اگر چین امریکہ کے بینکوں سے اپنا سرمایہ نکال لے تو امریکہ 15دنوں میں دیوالیہ ہوجائے گا ۔اب ہم نے سوچنا ہے کہ ہم نے پاکستان کو روس جیسا بنانا ہے یا چین جیسا؟ ہمارے ملک میں کرپشن کو روپے پیسے تک محدود سمجھا جاتا ہے حالانکہ اختیارات کا غلط یا ناجائز استعمال بھی بدعنوانی ہی کی ایک صورت ہے اپنا کام دیانت سے انجام نہ دینا بھی بدعنوانی کے ذمرے میں آتا ہے۔ہمارے وطن عزیز میں مسئلہ بدعنوانی کا نہیں بدعنوانی کے سرطان بن جانے کا ہے جیسے سرطان میں خلیوں کی اندھا دھند نشوونما ہوتی ہے اسی طرح ہمارے یہاں بدعنوانی کا پھیلاؤ بھی اندھا دھند ہوگیاہے۔مگر بدعنوانی سرطان کب بنتی ہے؟ اور کیسے بنتی ہے؟ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے مطلب خرابی معاشرے کے بالائی طبقے میں پیدا ہوتی ہے چونکہ ہمارے معاشرے میں بالائی طبقات کو آئیڈیل جانا جاتا ہے تو جو کچھ بالائی طبقہ کرتا ہے ۔معاشرہ اسی جانب چل نکلتاہے۔جب تک بالائی طبقہ برائی کو برائی کہتا ہے عام لوگوں میں برائی کے خلاف رد عمل موجود رہتا ہے مگر جب بالائی طبقہ برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے تو عوام بھی برائیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے ایک ٹی وی چینل کا ٹاک شودیکھتے ہوئے جب اینکر نے ایک پارٹی کے رکن سے کرپشن کے حوالے سے سوال کیا تو موصوف نے سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ “بھائی کیا کرپشن پہ ہمارا حق نہیں ہے”تو جناب جب ہمارا بالائی طبقہ ہی ایسی سوچ کا حامل ہے تو عوام سے کیا گلہ؟ بدعنوانی دنیا کے کس ملک میں نہیں لیکن دنیا کہ اکثر ملک بقاء کے سوال اور مسئلے سے دوچار نہیں ہیں مگر پاکستان میں یہ خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے کہ پتہ نہیں ہمارا وجود اگلے سال ہے یا نہیں اس صورت حال میں بدعنوانی کرنے والے سوچتے ہیں کہ جو کرنا ہے آج کرلو پھر معلوم نہیں موقع ملے نہ ملے ریاست کے عدم استحکام کے ڈر کی وجہ سے حکومتوں کو بھی عدم استحکام کا مسئلہ درپیش رہتا ہے ۔ہمارے یہاں ایک حکومت ٹھیک سے آئی نہیں ہوتی تو کسی نہ کسی وجہ سے رخصت ہوجاتی ہے ۔یہ صورت حال حکمرانوں کو لوٹ مار پر اُکساتی ہے۔ہمارے ہاں کرپشن صرف اسی وجہ سے ہی ہے اور ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم بھی ہے کہ جیسے عوام کے اعمال ہونگے ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کیئے جائیں گے اگرہمیں اپنے ملک کو بچانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنا آپ سدھارنا ہوگا۔اس کے بعد اپنے نظام انصاف کو بہتر بنانا ہوگا اور پھر اپنے نظام تعلیم پر توجہ دینی ہوگی تاکہ عوام میں حلال وحرام کی تمیز پیدا ہو اور ہمارا معاشرہ تمام معاشرتی برائیوں سے محفوظ ہوسکے ۔رہی بات بقا کے مسئلے کی تو اسکا حل یہ ہے کہ ہمیں اپنے ادارے مضبوط کرنے ہونگے تاکہ ہم تمام اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹ سکیں۔