|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2017

ملک کی کل ساحل کا رقبہ ایک ہزار کلومیٹر ہے جس میں بلوچستان کی ساحلی پٹی بمطابق محکمہ فشریز778کلومیٹر پربلوچستان کے دو اضلاع گوادر اور لسبیلہ پر مشتمل ہے۔گوادر کے ساحل600کلومیٹر جبکہ لسبیلہ کے ساحلی علاقہ 178کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ساحل بلوچستان آبی وسائل اور سمندری دولت سے مالامال ساحل سمندر ہے۔جیساکہ اگلتی سونا سرزمین بلوچستان میں قدرتی گیس وتیل،سونا و چاندی،کرومائیٹ وپن بیرائیٹ،کوئلہ و چونے کاپتھر اور پیومائس و سنگ مرمر سمیت دیگر قیمتی معدنی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔اسی طرح ساحل بلوچستان میں دنیا کے مہنگے ترینSea Food اور اعلی القسام مچھلیوں،جھینگوں اور لابسٹرز ودیگر آبی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔اس وقت دنیا میں مچھلیوں کو پچاس بنیادی نسلوں یا اقسام میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔جن کے 38اقسام ساحل بلوچستان میں موجود ہیں۔ جن میں Flatfish,Sardineella,Shads,wolfllerings,L-Mackeel,Dolphin, Sharks,Shrimps,Sea catfish,وغیرہ شامل ہیں۔ ایک بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق ساحل بلوچستان کی سالانہ پیداوار چھ لاکھ میٹرک ٹن آبی وسائل ہے جس کی کل مالیت ساڑھے چھ ارب روپے ہے۔ اور بحر ہند کے مقابلے میں بحر بلوچ کی ساحلی پیداوار چار گناہ زیادہ ہے۔اسی طرح دنیا کے دیگر ساحلوں کے مقابلے میں پیداواری صلاحیت دس گناہ زیادہ ہے جو کہ دنیا کے بہترین ساحل سمندروں میں سے ایک ہے۔ساحل بلوچستان پر روزگار کے لحاظ سے 50000مقامی افراد وابستہ ہیں۔جو پچاس ہزار خاندانوں کے عتبار سے تقریباً دو لاکھ افرادبنتے ہیں۔ جبکہ ان ڈائریکٹ تین لاکھ افراد کا ذریعہ معاش یہی ساحل ہے۔پانی کا تناسب سطح زمین سے3%فیصد ہے۔اسی طرح محکمہ فشریز کے مطابق ساحل بلوچستان پرتمر)مینگروز(کے جنگلات کی کل لمبائی 51کلومیٹرپر مشتمل ہیں۔ اعلی القسام آبی وسائل اور مہنگا ترین سی فوڈ رکھنے اوربحرہند کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے اسی طرح دنیا کے دیگر ساحلوں کے مقابلے دس گناہ زیادہ ساحلی پیداواری صلاحیت رکھنے کے باوجود ساحل بلوچستان حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے آج کے جدید دور میں بھی مقامی ماگیر جدید کشتیاں اور دیگر جدید سہولیات سے محروم ہیں۔جو اپنی مدد آپ کے تحت قدیم طریقوں سےBoat Makingکرکے روایتی طریقوں سے آبی وسائل پکڑ کر سخت محنت اور مشقت سے کراچی ودیگر مارکیٹوں تک پہنچا کر روایتی طریقوں پرانحصار کرنے پر مجبور ہیں۔اس وقت ساحل بلوچستان سے براہ راست وابستہ کل وقتی ماہی گیروں کی تعداد27040ہے جن کی سالانہ فی کس آمدنی 109126 روپے ہے۔جزوی ماہی گیروں کی تعداد9638ہے جن کی سالانہ فی کس آمدنی72757روپے ہے۔اسی طرح کبھی کبھار کے ماہی گیروں کی تعداد5108ہے جن کی سالانہ فی کس آمدنی36378روپے ہے ۔ اورمالی سال 2004-05 میں ان ماہی گیروں کی ماہی گیری فیس40185روپے اور کشتی لائسنس اور رجسٹریشن فیس 2168774روپے اسی طرح انجن سروس فیس 8580 روپے مقررکئے گئے۔لیکن ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ان ماہی گیروں سے سالانہ بھاری بھر رقم وصول کرتی ہے۔دوسری طرف ساحل بلوچستان پر غیر قانونی ٹرالنگ وا سمگلنگ روکنے میں بری طرح نا کام ہے۔اس وقت ساحل پر آبی و سائل کے غیر قانونی اسمگلنگ و ٹرالنگ اپنی عروج پر ہے۔جو غیر قانونی طور پربڑی تعداد میں آبی وسائل پکڑ کر اندرون و بیرون ملک اسمگل کرکے بھاری بھر رقم وصول کرتے ہیں۔اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔بے بس مقاہی ماہی گیر اپنے ہی منہ کا نوالہ طاقت ور اسمگلروں کے ہاتھوں چھینتے دیکھ رہے ہیں اور نوحہ کرتے ہیں مگر دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ مزید یہ کہ سی پیک کے توسط سے گوادر پورٹ اگر دنیا کے تجارتی مقاصد کے لیئے مکمل بحال ہوگئی توگوادر پورٹ پر بحری جہازوں کا ایک بڑے پیمانے پر آمد رفت کا سلسلہ شروع ہوجا ئیگاجس سے سمندری حدود میں شدید آلودگی سے ساحل بلوچستان پر آبی حیات متاثر ہوگی اور اس طرح ساحلی پیداوار میں کافی کمی واقع ہوگی۔اس طرح پچاس ہزار خاندانوں کا ذریعہ معاش بھی متاثر ہوگا۔سی پیک منصوبے میں مقامی ماگیروں کے معاشی مستقبل کو مد نظر رکھتے ہو ئے متبادل روز گار کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ مزید برآں،ساحل بلوچستان کی اہمیت و افادیت کو مد نظررکھتے ہوئے سی پیک منصوبے کی تحت ساحل پر جہازرانی صنعت قائم کرکے مقامی افراد کو روز گار فراہم کرنے اورگوادر و لسبیلہ میںآبی حیات سے متعلق علوم خاص طور ماہی گیری صنعت کو وسعت دینے کے لئیے ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ ، کالجز، یونیورسٹیاں قائم کرکے لوگوں کوبراہ راست اسی صنعت سے وابستہ کرکے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ کما کرملکی معیشت کو مزید مستحکم کرکے بلوچستان کو حقیقی بنیادوں پر ترقی و خوشحالی کے شاہراہ پر گامزن کرے۔