|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2017

ضلع جعفرآباد کے قریب کے رہائشی غلام جان سے ملاقات اسکولوں کے وزٹ کے دوران ہوئی جب سب علاقے کے لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کر رہے تھے۔۔ دوران گفتگو جب اسکول چھوڑ دینے والی بچیوں کو دوبارہ اسکول داخلے کے لیے آمادہ کر رہے تھے تو غلام جان نے کہا کہ میری بیٹی نے پانچ پاس کیا ہے آگے کوئی مڈل یا ہائی اسکول نہیں تھا تو میں نے اس کی شادی کردی یہ کہہ کر اس نے اپنا سر جھکا دیا، سمجھ نہیں پائی وہ درد تھا یا شرمندگی۔۔۔۔ تفصیل سے بات کرنے پر پتہ چلا غلام جان کی دو بیویاں اور دس بچے ہیں جن میں دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے شاھدہ بھی ان میں سے ایک ہے۔۔۔ جس کی شادی کم عمری میں کر دی گئی۔۔۔ جب اس حوالے سے پوچھا کہ بچی کی کم عمری میں کیوں شادی کی تو والد نے بتایا کہ بچی نے پانچ پاس کرلیا تھا آگے اسکول گاؤں میں نہیں تھا جو مڈل اسکول ہے وہ بہت دور ہے۔۔۔ ہم کسان لوگ ہیں سارا دن زمینوں پہ گزرتا ہے بچی کو اکیلا گھر میں نہیں چھوڑ سکتے تھے۔۔ اگر آگے اسکول ہوتا تو اس میں داخل کرتے بچی اسکول جاتی تو تسلی رہتی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچی کی شادی کرنا پڑی۔۔۔ اور نہ جانے کتنی بچیاں خواب دیکھنے کی عمر میں زمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا دی جاتی ہیں۔بات تو شاید چھوٹی سی لگ رہی ہے لیکن ایک بچی کی نامکمل تعلیم سے ایک نا مکمل خاندان بنتا ہے ایک سروے کے مطابق زیادہ پڑھی لکھی عورت سے معاشی استحکام بھی ہوتا ہے۔۔ جب بات ہو کم عمری کی شادی سے پیدا شدہ مسائل کی تو اس میں سب سے زیادہ سر فہرست ماں بچے کی اموات کی شرح میں اضافہ ہے۔ بلوچستان میں ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ میں سے 785 مائیں دوران زچگی فوت ہوجاتی ہیں جبکہ بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی ہر 1000 بچوں میں 97 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو مائیں جتنا زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی ہوتی ہے۔۔۔۔ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں ماں بچے کی شرح اموات سب سے زیادہ ہیں اور اگر تعلیم کی فراہمی اور اسکول سے باہر بچیوں کی شرح کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ لڑکیاں اسکولز سے باہر ہیں۔۔۔۔ صوبے میں جہاں دہشت گردی، قانون کا نفاذ جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں وہیں پہ معیاری تعلیم کی فراہمی کو ممکن بنانے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔۔۔بلوچستان میں بچیوں کی کم عمری کی شادی ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے لیکن اس سے پیدا شدہ مسائل کوئی عام نہیں ہوتے۔۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں اس کے کوئی اعداد و شمار بھی موجود نہیں۔۔۔کتنی ننھی کلیاں تتلیاں پکڑنے کی عمر میں گڑیوں کے ساتھ کھیلنے والے ہاتھ بچے جنم دے کر اسے پالنے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہیں۔۔۔ کوئی بھی مسئلہ بلا وجہ نہیں ہوتا ہر مسئلے کے پیچھے کچھ وجوہات ہوتی ہیں آج پاکستان بھر میں چھوٹی عمر کی شادی ،کارو کاری، ماں بچے کی اموات پہ بات تو ہوتی ہے بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں (جن کا براہ راست ایک عام خاتون کی زندگی پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ) اور مسئلے کے حل کے لیے بڑی پلاننگ بھی کی جاتی ہیں۔۔ لیکن کبھی مسئلے کو جنم دینے والی وجوہات پہ کام نہیں ہوتا جس سے یہ سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس پہ اتنی توجہ یا غور نہیں کیا گیا۔میری ناقص رائے اور تجربے کی بنیاد پہ کہہ سکتی ہوں کہ اگر ایک بچی 5 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کی جاتی ہے میٹرک تک اس کی عمر 16 سال ہوجاتی ہے۔ اگرچہ یہ عمر بھی شادی کے لیے موزوں نہیں لیکن 12 اور 14 سال کی عمر کے مقابلے میں16 کی لڑکی طبعی و ذہنی طور پہ نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ دوران تعلیم بہت کم کیسسز ہونگے جن کی شادی ہوتی ہوگی ورنہ کم از کم میٹرک کے بعد والدین ان کی شادی کرتے ہیں۔۔ اگر میٹرک تک کی تعلیم عام کردی جائے، تمام سہولیات فراہم کی جائیں تو کم عمری کی شادی کو کسی حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے اگر کم عمری کی شادی کنٹرول ہوجائے تو ماں بچے کی اموات کی شرح میں بھی واضح کمی ہوگی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں مسائل کو جڑ سے ختم کرنا یا اکھڑی دیوار پہ رنگ و روغن کر کے صرف بدنما داغ چھپانا۔۔۔آج بھی بلوچستان میں 72 فیصد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں ان میں سے 50فیصد کی کم عمری میں شادیوں کا خدشہ ہے اوران کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے کم ازکم 20فیصد ماں اور بچے کی صحت کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ مسائل کا ڈھول پیٹنے کے بجائے عملی اقدامات کرے۔ خواتین کے آدھے سے زیادہ مسائل کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو ممکن بناکر کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ (نوٹ۔اوپر دئیے گئے نام پرائیویسی کی وجہ سے بدل دئیے گئے ہیں کہانی حقیقی ہے)