|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2017

چاروں ا طراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا کوئٹہ بلوچستان کا دار الحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے بلوچی میں کویتہ شال کوٹ اور پشتون میں کوتہ ماضی میں کوئٹہ کو اسکی خوبصورتی کے اعتبار سے لٹل پیرس کہا جاتارہاہے آج بھی یہاں برٹش دور کی تعمیرات اپنا وجود رکھتی ہیں موسمی اعتبار سے اسے سیاحی مقام کی حیثیت حاصل ہے جہاں ملک بھر سے لوگ چھٹیاں گزارنے اور سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں پاک افغان بارڈر کے قریب واقع اس شہر کو تجارتی حوالے سے سینٹرل ایشیاء کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے جبکہ دفاع کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی چھاؤنی یہی واقع ہیں1,680میٹر ز اور 5,510فٹ پر محیط رقبہ اور 1,140,00 نفوس پر مشتمل آبادی آج کئی گناہ زیادہ پھیل چکی ہیں دشت سے لے کر کچلاک تک ہر طرف آبادی ہی آبادی ہیں چند ہزار افراد پر مشتمل شہر کی آبادی آج لاکھوں میں ہیں جو کہ شہر کی خوبصورتی پر اثر اندا زہورہی ہیں جبکہ بر وقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے آج آدھے سے زیادہ آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ہزاروں افراد کے لیے بنائی گئی شاہراؤں پر لاکھوں گاڑیاں دوڑ رہی ہیں شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی مقامی حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ڈھائی سال قبل عدالتی حکم نامے کے آگے اس وقت کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے سر تسلیم ختم کرتے ہوئے سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ جلد بازی میں اس پر عملدرآمد بھی کر دکھایااور کئی مواقعوں پر اسے اپنی حکومت کے لیے اعزاز قرار دے چکے ہیں یوں بلوچستان میں جماعتی بنیادوں پر پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہوئیں لگ بھگ تمام جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے انتخابی نشانات پر انتخابات میں حصہ لیا اور بخیر و عافیت انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا جس کے بعد حکومت اور بلدیاتی نمائندوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چھڑ گئی جو تاحال اختیارات کی حصول کے لیے جاری ہیں بلدیاتی نمائندوں کی طویل جد و جہد اجتماعی مظاہروں جلسے اور جلوسوں کے بعد بلا آخر دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس کے بعد میئراور ڈپٹی میئرکے انتخاب کے حوالے سے اکثر سیاسی جماعتیں جن کی قیادت نوابزادہ لشکری رئیسانی کررہے تھے اور اکثر اوقات ساروان ہاؤس میں بلدیاتی نمائندوں کے اجلاس منعقد کئے جاتے رہے نوابزادہ لشکری رئیسانی جو اس وقت مسلم لیگ ن کا حصہ تھے اور گمان بھی یہی تھا کے میئر اور ڈپٹی میئرمسلم لیگ ن ہی سے لئے جائینگے رحیم کاکڑ جو اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کررہے ہیں میئر کے لیے مضبوط امیدوار تھے جنہیں ماضی میں بھی مئیر رہنے کا اعزاز حاصل ہے نوابزادہ لشکری رئیسانی کی جد و جہد کی بدولت بلا آخر میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کی راہ ہموار ہوئی اس سارے عمل میں( ن) لیگ کی قیادت نے نوابزدہ لشکری رئیسانی کو نہ صرف بائی پاس کیا بلکہ ان سے انکی رائے بھی طلب نہیں کی جس پر لشکری رئیسانی نے کچھ عرصے بعد ن لیگ سے اپنی رائے جداکرلیں مری کی پر فضاء مقام پر ایک اور مری معاہدہ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو، محمو دخان اچکزئی، میاں محمد نواز شریف، کے درمیان طے پایا جسکا برملا اظہار گزشتہ روز میئر کوئٹہ کرچکے ہیں انکا کہنا ہے کہ مری معاہدے کے تحت گورنر اور میئر یہ دونوں عہدے پشتونخوا میپ کو دیئے گئے ہیں لہذا ن لیگ اپنے قائد کے معاہدے کی پاسداری کرے بلدیاتی نمائندے آج بھی اختیارات کی کش مکش میں احتجاج پر ہیں گزشتہ روز اسلام آباد پریس کلب کے باہر بھی مظاہرہ کیا گیا اختیارات کی عدم فراہمی کے باعث جہاں بلدیاتی نظام مفلوج ہوچکا ہیں وہی دانستہ طور پر اس نظام کو فیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے گزشتہ برس دسمبر کے آخری ہفتے میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کا 2016اور 17کا بجٹ منظور نہ ہوسکا جو اب تک التواء کا شکار ہے اپوزیشن اور حکومتی کونسلروں کی تعداد 41,41 ہونے کے بعد ڈپٹی میئر اور کنونیئر نے کارپوریشن کا اجلاس ملتوی کیا بجٹ کا کل تخمینہ 4ارب 47کروڑ 77لاکھ 36ہزار 682ایوان میں پیش کیا گیاڈپٹی میئر نے رائے شماری کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 41 اورحکومتی ارکان کی تعداد بھی 41تھی اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان زبردست نوک جوک جاری رہی اور ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کر نے لگا کوئی بھی رکن بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ 21ماہ میں ہونیوالے تمام تراخراجات کے ادائیگیوں کی تفصیلات کو منظر عام پرلایا جائے روڈ کراس کے نام پر کروڑوں روپے کے ٹینڈروں میں خرد بردکا انکشاف میئر کی جانب سے19 حلقوں میں30 لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز کا ٹھیکہ من پسند لوگوں کودیاگیا ہے موٹرسائیکل سائیکل وانڈر گراؤنڈ پارکنگ بغیر ٹینڈر کے اپنے لوگوں کو دیئے گئے صفائی کیلئے 8 سو ملازمین کی بجائے1300 ملازمین کی تنخواہیں وصول کی جاتی رہی ہیں 104گزیٹڈ اور نان گزیٹڈ لوگوں کو بھرتی کیاگیاہے جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ اور بلوچستان حکومت کی جانب سے اس پر پابندی عائد کی گئی ہے شہر میں صفائی، ترقیاتی کاموں سمیت عوام کو کوئی بھی سہولت میسر نہیں بلکہ ہٹ دھرمی کے ذریعے سپریم کورٹ اور صوبائی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ، گزشتہ برس ماہ نومبرکے دوران بھی غیر قانونی چیکس اپنوں میں بانٹے گئے،پیڈ پارکنگ کے نام پر 9 ماہ تک کوئٹہ کے شہریوں کو لوٹا گیا لیکن قومی خزانے میں اس سے ایک روپیہ بھی جمع نہیں ہوا ہے، حکومت نے 5ارب روپے کوئٹہ شہر میں پانی و دیگر منصوبوں کیلئے دیئے جنہیں بعد میں من پسند افرا دمیں بانٹ دیا گیابجٹ سال 2015اور 2016کے ترقیاتی مد میں 17کروڑ روپے منظور کئے گئے تھے لیکن حالیہ بجٹ سال 2016میں تقریباً 47کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اضافی رقم میئر صاحب کے چند منظور نظر لوگوں کی اسکیمات شامل کرنے کے لیے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ سال2015-16کے فنڈ سے جاری منصوبے اب تک التواء کا شکار ہیں میٹر پولیٹن میں انجینئرز ہونے کے باوجود ڈیلی ویجز انجینئر ز رکھے گئے ہیں میٹر پولٹین میں ریٹائرڈ آفیسران کی تعیناتی اور ان کی مانیٹرنگ کمپنی بنانے کا کیا جواز ہے ان آفیسران کے تنخواہوں کے مد میں ماہانہ لاکھوں روپے ادا کئے جارہے ہیں جوکہ اس شہر اور غریب عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے میٹر پولیٹن میں خاکروبان،اور قلی کے لیے عارضی ملازمین رکھے گئے ہیں ان کی اصل تعداد 800ہے لیکن تقریباً 1300افراد کی تنخواہیں اداکی جاتی رہی ہیں مٹن مارکیٹ کے دکاندار ڈیڑ ھ سال سے سڑک پر بیٹھے ہیں میئر کوئٹہ مزید عہدے پر رہنے کا جوازکھو چکے ہیں اس لئے نئے قائد ایوان کا چناؤکرکے ممبران کو دست و گریباں ہونے سے بچایا جائے اس وقت مسلم لیگ(ن)، نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، بی این پی، جمعیت علماء اسلام(ف)، ایچ ڈی پی،مجلس وحدت المسلمین، آزاد کونسلران کا مضبوط اتحاد قائم ہیں میئر صاحب کوئی توجہ نہیں دے رہیں درج بالا الزامات کو سو فیصددرست قرار دینا ممکن نہیں لیکن اس سے سو فیصد انحراف بھی نہیں کیا جاسکتا شہر میں جگہ بہ جگہ گندگی کے ڈھیر لٹل پیرس کے دعویداروں کا منہ چھڑارہی ہیں شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں صاف پانی کی فراہمی دیرینہ خواب بن چکا ہے جبکہ دوسری جانب میئر موصوف اب بھی بضد ہیں کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ہیں اپوزیشن کی جانب سے غیر قانونی اقدامات کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے وہ خود کرپشن کرینگے نہ کسی کو کرنے دینگے میٹروپولیٹن کے فنڈز سے کسی بھی قسم کی کرپشن ثابت ہوئی تو سزا کے لیے تیار ہوں ان کا موقف ہے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی پی ایس ڈی پی میں شامل تمام ترقیاتی منصوبوں پر زبردست چیک اینڈ بیلنس رکھاگیا ہے اس سلسلے میں کوتاہی برتنے اور غیر تسلی بخش کام کرنے والے انجینئرز ،ٹھیکیداروں اور دیگر کے خلاف بھر پور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی، پی ایس ڈی پی میں شامل کئے گئے اسکیمات جب تک عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں ہونگے اس وقت تک ان کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے نگرانی کا عمل کوئٹہ کے تمام حلقوں کے دورے ،اسکیمات پر کام سے قبل ،کام کے دوران اور منصوبوں کی تکمیل کے بعد جاری رہی گی ، کوئٹہ شہر میں گزشتہ دنوں تک جاری رہنے والی بارشوں اور برفباری کے دوران شہر کی معروف سڑکین بھی ندی نالوں کا منظر پیش کرتی رئیں سیوریج کاپانی گھروں میں داخل ہوگیا شاہراؤں پر کھڑے پانی نے کئی دنوں تک شہریوں کاچلنا محال کررکھا شہر کے دیہی علاقوں میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے کہیں گھروں میں دو سے تین فٹ تک بارش کا پانی جمع ہوگیا تھا اکثر علاقوں میں درجنوں مکانات مہندم ہوئے ہیں بارش کے پانی سے شہریوں کے قیمتی اشیاء بھی خراب ہوئے ہیں اس سارے عمل میں میئر صاحب اور ڈپٹی میئر کہیں نظر نہیں آئیں نہ ہی بڑے جوتے پہنے کسی شاہراہ کی صفائی گھر سے پانی نکالنے کے عمل کی نگرانی کی گی نہ کوئی ہدایات محض میڈیا کے ذریعے بیانات داغے جاتے رہے تاکہ عوام کو باور کرایا جاسکے کے میٹروپولیٹن کا عملہ متحرک ہے برفباری کے بعد ہفتے سے زائد تک شاہراؤں کے اطراف برف اور برش کا پانی جمع رہا کسی نے نوٹس نہیں لیا وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے خود شہر کا دورہ کرکے عوامی مسائل کا جائزہ لیا اور صفائی سمیت نکاسی آب کی ناقص صورتحال اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر برہمی کا اظہار کیا ساتھ میں ضلعی انتظامیہ کو متاثرہ افراد کی داد رسی کے لیے احکامات صادر فرمائیں کوئٹہ شہر کی 80 فیصد آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں شہر میں جگہ جگہ لگائے گئے ٹیوب ویل بند پڑے ہیں جبکہ سرکاری ارضیات پر بھی بااثر افراد کا قبضہ ہے جو ایمانداری کاا رگ الاپنے والوں کے لیے سوالیہ نشان ہے میٹروپولیٹن کو محض ایک پارٹی کے دفتر کے طور پر اگر چلایا جاتارہا تو عوامی مسائل کے حل کی توقع کس سے رکھی جائے میئر کوئٹہ ایک زیرک سیاستدان ہونے کے ناطے اپنے کئے دعدوں کے اعترا ف میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے میں پہل کریں تاکہ میئر منتخب ہونے کے پہلے روز انہوں نے جو عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کوئٹہ شہر کو لٹل پیرس بناؤں گا وہ وعدہ وفا ہوسکے شہری لٹل پیرس کے متلاشی نہیں نہ انہیں لٹل پیرس بنناسے کوئی سروکار ہے ضرورت سے امر کی ہے کہ میٹروپولیٹن کے کوئٹہ شہر میں واقعہ تمام اراضیات کو بااثرافراد کے قبضہ سے واگزار کرایا جائے اور ان سے ملنے والے آمدنی کو شہر پر خرچ کیاجائے سرکاری وسائل کے استعمال میں شفافیت برتی جائے ٹھیکوں میں من پسند افراد کو نوازنے کی بجائے میرٹ اور اہل افراد کو ٹھیکے دیئے جائیں ماضی میں سردز غلطیوں کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن شہریوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے راہ ہموار کی جائے بحرحال سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں صوبے کی روایات اور سیاسی و جمہوری اقدار کے تحت تحمل اور برداشت کی سیاست کو پروان چڑھا یا جائے تاکہ شہر کی ترقی کے اہداف حاصل ہوسکیں سب کو ملکر کوئٹہ شہر کی بہتری اور شہریوں کو جدید سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہوگا شہر کے وسیع ترمفاد ات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے اور کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دی جائے شہری آج بھی اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب نمائندوں سے توقع رکھے ہوئے ہیں رنگ برنگی برقی قمقموں اور کمبوں پر لاٹس لگانے اور سڑکوں کے اطراف جاڑو دینے سے لٹل پریس کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا تمام سیاسی جماعتیں ذاتی گروہی مفادات کو پس پشت رکھ کر شہر کی بہتری کے لیے طویل المدتی منصوبے بنائیں تاکہ شہریوں کو پانی سیوریج، صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکیں ۔