|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2017

گزشتہ روزکراچی، کوئٹہ اور وزیرستان میں بیک وقت دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 18قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان میں چھ پولیس کے جوان ، دو اعلیٰ ترین افسران اور تین پولیس وارڈن شامل تھے۔ جبکہ تین افراد وزیرستان میں اور دو کوئٹہ میں ہلاک ہوئے۔ یہ تینوں دہشت گردی کے واقعات ہیں جن کے ذریعے دہشت گردوں نے اپنے وجود کا اظہار کیا کہ وہ ان مقامات پر موجود ہیں۔ لاہور کا خوفناک دھماکہ خودکش حملہ تھا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان کے ایک گروپ جمعیت احرار نے قبول کی اور خودکش بمبار کا نام بھی ظاہر کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب اسمبلی کے باہر حکومت کے خلاف ایک مظاہرے کو نشانہ بنایا گیا جس میں پولیس کے اہلکار شہید ہوئے۔ شاید اس حملے کا ہدف پولیس تھا مظاہرین نہیں تھے تاہم یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کریں اور عوام کو تمام تر درست تفصیلات بتائیں ۔ جمعیت احرار آج کل زیادہ مستعد نظر آتی ہے ، کوئٹہ کے خوفناک دھماکے بھی اس نے کیے تھے یا ان کو کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ البتہ کافی عرصے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پنجاب میں بھی ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام اقدامات عوام دشمن اور ملک دشمن ہیں جن کا واحد مقصد ملک میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرنا خصوصاً ایسے وقت میں جب بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات روز بروز کشیدگی کی طرف جارہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کامقصد دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنا ہے اور ریاست اور عوام کو نقصان پہنچانا یا عوام الناس کو دل برداشتہ کرنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے دہشت گردی کے خلاف کاروائی پر توجہ مرکوز کریں اور ان کے حامی عناصر پر کڑی نگاہ رکھیں جو نظریاتی طور پر تحریک طالبان کے اتحادی یا ان کے حامی ہیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک مشکل نظر آتا ہے جب تک تمام مدارس پر حکومت کا موثر کنٹرول نہیں ہوتا اور حکومت ان کو نظام تعلیم کا حصہ نہیں بناتا۔ دوسری وجہ ملک میں 50لاکھ سے زائد افغان غیر قانونی تارکین وطن اور ایک کروڑ سے زیادہ بھارت، بنگلہ دیش اور برما سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی ہے۔ بلوچستان کے عوام دہشت گردی سے چھٹکارہ پانے کے لیے تواتر سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبے سے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو جلد سے جلد نکالا جائے تاکہ بلوچستان امن اور ترقی کا گہوارہ بن جائے اور تمام غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے، ان کے پالنے پر اربوں خرچ کرنے بند کئے جائیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بلوچستان میں 10لاکھ سے زائد روزگار کے ذرائع پر غیر قانونی تارکین وطن کا قبضہ ہے۔ اگر یہ سب لوگ عزت و احترام کے ساتھ اپنے ملک واپس جاتے ہیں تو 10لاکھ ملازمتیں اور روزگار کے ذرائع مقامی لوگوں کو مل جائیں گے جس سے غربت میں نہ صرف کمی ہوگی بلکہ لوگ زیادہ خوشحال ہوں گے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کو جو سہولیات فراہم کررہی ہیں ان کی مالیت کا اندازہ اربوں ڈالر ہے ۔المیہ یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن چاہے وہ دہشت گرد ہوں، چور ڈاکو، اسمگلرز ہوں یا شریف انسان ان سب کو یہ اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی سرکاری طور پر کہ وہ مقامی آبادی میں گل مل جائیں اور رہی سہی اچھی روایات کو تباہ کریں۔ دہشت گردی کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن سے زیادہ بنتا ہے مقامی افراد شاذ و نادر ہی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں جبکہ اکثر خودکش بمبار اور دہشت گرد افغان نکلے ہیں۔ اس لئے ان پر کڑی نگاہ رکھنا ضروری ہے بلکہ جتنی جلدی ممکن ہو ان کو اپنے ملک واپس بھیجا جائے تواتنی ہی جلدی ملک میں امن لوٹ آئے گا۔ بعض بین الاقوامی ادارے حکومت پاکستان پر غلط الزامات لگارہے ہیں کہ بعض افغانوں کو زبردستی ملک سے نکالا گیا جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ تمام بلوچ اس بات پر سراپا احتجاج ہیں کہ حکومت پاکستان بلوچستان میں غیر قانونی تارکین وطن کی سرپرستی کررہی ہے اور ان کو نکالنے کے انتظامات نہیں کررہی۔ بلوچ قوم کا یہ احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت پاکستان نے افغان تارکین وطن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ بھارت اس عمل کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا اور افغانستان کو اس بات پرپاکستان کے خلاف بد ظن کرے گا۔