|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2017

سانحہ سیہون شریف کے شہداء کیلئے سندھ سمیت پورے ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا جا رہا ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔حکومتِ سندھ کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد میں سے مزید سات زخمیوں نے جمعہ کے روز دم توڑ دیا جس کے بعد شہداء کی تعداد 83 تک پہنچ گئی ہے۔خودکش حملے میں 343 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 76 شدید زخمیوں کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعے کو نوابشاہ اور سیہون کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی ۔سیہون میں خودکش دھماکہ جمعرات کی شام درگاہ کے اندرونی حصے میں اس وقت ہوا جب وہاں زائرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔اے ایس پی سیہون کے مطابق حملہ آور سنہری دروازے سے مزار کے اندر داخل ہوا اور دھمال کے موقعے پر خود کو اڑا لیا۔تحقیقاتی ٹیموں نے بھی دھماکے کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں سے شواہد اکٹھے کیے ۔ سیہون میں خودکش حملے میں شہید ہونے والے زائرین میں سندھ کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔شہداء کا تعلق سیہون کے علاوہ دادو، جامشورو، شکارپور، رحیم یار خان، کوئٹہ اور خضدار سے بتایا گیا ہے جبکہ ضلع جامشورو کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 11 افراد بھی شہیدہوئے ہیں۔ مقامی ایدھی مرکز میں اس وقت 12 لاشیں ایسی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ان میں سے بعض لاشوں کے صرف ٹکڑے موجود ہیں اس لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کاکام شروع کر دیا گیا ہے۔سندھ رینجرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعرات اور جمعے کے درمیانی شب صوبہ سندھ میں مختلف کارروائیوں میں 18 شدت پسند مارے گئے۔بیان کے مطابق ان میں سے 11 شدت پسند کراچی کے منگھوپیر کے علاقے میں خفیہ اطلاعات پر ہونے والے آپریشن اور اس کے بعد تلاشی کی کارروائی کے دوران مارے گئے جب کہ اس کارروائی میں رینجرز کے دو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔رینجرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ سات شدت پسندوں کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب سیہون میں امدادی کارروائیوں میں شرکت کے بعد واپس آنے والے رینجرز کے قافلے پر کاٹھور کے علاقے میں حملہ ہوااور فائرنگ کے تبادلے میں یہ افراد مارے گئے۔سیہون شریف سانحہ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جمعے کے دن علی الصبح ملک بھر میں کریک ڈاؤن شروع کردیا جس کے دوران مختلف شہروں میں درجنوں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں بھی ملک میں سکیورٹی آپریشن جاری رہے گا۔ درگاہ سیہون شریف پر دھماکے کے بعد تمام مذہبی مقامات اور درگاہوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بری امام اور لاہور میں بی بی پاک دامن کے مزار بند کر دئیے گئے ہیں جبکہ داتا دربار کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی ہے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ترجمان نے کہاہم متاثرین کے خاندانوں اور پاکستانی عوام سے تعزیت کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتِ پاکستان کی حمایت کرتی ہے۔پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا ہے کہ ہمیں اس صوفی مزار پر بے رحمانہ حملے پر غم اور صدمہ ہوا ہے۔انھوں نے پاکستانی حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلایاہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرہ باجوہ نے دہشت گردوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہاہے کہ دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیاجائے گا عوام پُرسکون رہیں، پاک فوج دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنادیگی ۔ دوسری جانب ملک کی سرحدی سیکیورٹی میں اضافے کے ساتھ طورخم بارڈر کو بندکردیا گیا ہے اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد سرحد پار سے آکر کارروائی کرتے ہیں پاکستان نے سرحد کی نگرانی کیلئے مزید اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ بہرحال سیہون شریف سانحہ نے سب کو سوگ میں مبتلا کردیا ہے دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت ازسرنو سیکیورٹی جائزہ لیتے ہوئے کیاپالیسی اپنائے گی کیونکہ جس طرح متواتر ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اس سے ایک بار پھر خوف کا عالم بن گیا ہے اور عوام شدید خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب شدت پسندوں نے یورپ کے مختلف ممالک میں دہشت گردی شروع کی تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیاگیا اور اس کے بعد تارکین وطن کی بھی نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھی گئی اور یہ بھی کہاگیا کہ بعض تارکین وطن اس میں ملوث ہیں مگر ہمارے ہاں عرصہ دراز سے تارکین وطن کی صورت میں ایسے شرپسند عناصر موجود ہیں جو دہشت گردی کررہے ہیں یا پھر ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں جن کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کو واپس ان کے وطن بھیجنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے حالات مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے یہ ملک کی بقاء ،امن سلامتی کا مسئلہ ہے جس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب تک پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ مہاجرین کی عرصہ دراز سے مہمان نوازی کی جارہی ہے مگر اس کے بدلے ہمیشہ پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ آج دنیا پر یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ پاکستان کس طرح دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کررہی ہے اور دہشت گرد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کررہے ہیں اور ان کی پشت پناہی یقیناًوہ ممالک کررہے ہیں جو پاکستان میں امن دیکھنا نہیں چاہتے ۔بہرحال سیکیورٹی فورسز نے سیہون شریف سانحہ کے بعد جس طرح سے پھرتی دکھائی ہے وہ قابل تحسین ہے سیکیورٹی فورسز اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں اب حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ان مسائل پر توجہ دے جو دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں جس کی نشاندہی متعدد بار کی جاچکی ہے جس میں خاص کر سرحدوں کی کڑی نگرانی، مہاجرین کے نقل وحرکت پر پابندی ،غیر قانونی تارکین وطن کی جلد واپسی یہ وہ اقدامات ہیں جس سے دہشت گردی میں کمی آئے گی اور جو ممالک اس میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے فورم پر ان کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔