|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2017

بلوچ بحیثیت قوم صدیوں سے تاریخی و تہذیبی،سماجی و ثقافتی،معاشی و جیوگرافی،سیاسی و قباہلی لحاظ سے بلوچستان میں آباد ہیں.بلوچوں نے آبا و جداد سے اپنے قومی تشخص و بقاء ، پہچان و شناخت اور ثقافت و زبانوں کے تحفظ کے لئے کہی سامراجی طالع آزما قوتوں سے نبرد آزما ہو کرمنظم انداز میں اپنا دفاع کرتے رہے.اور اپنے قومی تشخص،شناخت،ثقافت اور زبانوں کو نسل در نسل نئی نسلوں تک منتقل کرتے رہے.اور بحیثیت قوم اپنے قومی بقا ء پر کبھی آنچ آنے نہیں دی.اسی طرح زندہ و تاریخی قوموں کی طرح ہمسایہ اقوام کے ساتھ برادرانہ و دوستانہ تعلق استوار کرکے نبھاتے رہے ہیں.بدقسمتی سے آج ایک مرتبہ پھر تاریخ نے بلوچ کو اس دورائے پر لا کھڑا کردیا ہے.جہاں انکے آباء واجداد نے اپنے قومی بقاء کیلئے تن و من کی بازی لگا کر طالع آزماؤں سے اپنی قسمت کا بازی جیتنے کے لئے نبرآزما تھے اور انہیں شکست سے دوچارکرکے اپنی منفرد قومی پہچان قائم و دائم رکھنے میں کامیاب ہوئے.کہنے کا مطلب یوں ہے کہ موجودہ صورتحال میں بلوچستان میں ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں بلوچ قومی بقاء غیرمحفوظ تصور ہو گی کیونکہ شہیدوطن نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت سے لے کر اب تک کہی بلوچ علاقے ایسے ہیں جو مسلسل متشدد حالات سے گزر نے کے سبب وہاں کی مقامی آبادی کی تقریباً اکثریت منتشر ہو کر صوبے کے دیگر اضلاع یا پھر صوبے سے متصل سندھ اور پنجاب نقل مکانی کر چکے ہیں.ان علاقوں میں ڈیرہ بگٹی،کوہلو، آواران،مکران و جھالاوان ودیگر علاقے شامل ہیں جن کی زیادہ تر آبادی نقل مکانی کرچکی ہے.ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی دوبارہ ڈیرہ بگٹی میں آباد کاری کا کئی مرتبہ جمہوری وطن پارٹی کے سابق سربراہ طلال اکبربگٹی مرحوم نے اپنی زندگی میں مطالبہ کیا تھا.اور وہ نواز حکومت سے کافی پر امید بھی تھے کہ میاں نواز شریف یا پھر اسکی حکومت اس حوالے سے ان کی بھرپور مدد کرینگے.اورم موجود سربراہ بھی یہی مطالبہ کر رہے ہیں.اسی طرح سابق دور حکومت میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے لاپتہ افراد کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے طلب کئے گئے پیشی کے بعد اپنے چھ نقاط میں سے ایک مطالبہ بھی یہی کیا تھاکہ بلوچستان سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد کا ری کوفوری یقینی بنایا جائے تاہم اب تک اس حوالے سے نہ وزیراعظم میاں نواز شریف نہ ہی اسکی حکومت نے کبھی توجہ دی ہے.اب جبکہ بلوچستان کی اکثرسیاسی جماعتیں جن میں بی این پی ،این پی،جمہوری وطن پارٹی اور بی این پی عوامی ودیگر قوم پرست جماعتیں شامل ہیں.بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ بلوچستان سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں فوری آباد کاری کو یقینی بنایاجائے لیکن اس مسئلے کوکوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔اس کے علاوہ، 80کی دہائی میں افغان وطن سے آئے لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین جو اب تک بلوچستان میں آباد ہیں جن کی اکثریت نے غیر قانونی و غیرآئینی طریقے سے پاکستانی شناختی کارڈ اور لوکل سرٹیفیکٹ حاصل کرچکے ہیں اور بڑے پیمانے پر جائیدادیں خرید چکے ہیں اور خرید بھی رہے ہیں۔اگر 1998میں ملک میں ہونے والے مردم شماری کے اعدار و شمار کو دیکھا جائے.تو اس کے مطابق بلوچوں کی آبادی 65فیصدجبکہ پشتونوں کی آبادی28.42فیصد ہے.اب افغان بارڈ سے متصل ضلع قلعہ عبداللہ کی آبادی 21لاکھ 38ہزار9سو97 ہو چکی ہے.جو 1998 میں 3لاکھ 70ہزار2سو69 تھی.حالانکہ 1931سے 1998تک بلوچ اور پشتون آبادی کے تناسب کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ انتہائی نارمل رہاہے.یعنی 1931میں برٹش حکومت کی بلوچستا ن میں ریوینو ریکارڈ کے مطابق پشتونوں کی آبادی 22.8فیصد تھی جو 1998کے مردم شماری تک 28.42فیصد ہوئی.اور1998تک پشتون آبادی میں 139فیصد اضافہ ہوا.ضلع قلعہ عبداللہ جسکی 1998 میں کل آبادی اگرچہ 370269تھی اب یہ 2011تک 2138997ہوگئی یعنی اس میں 447فیصد اضافہ ہوا.اور1931سے 1998تک کل پشتون آبادی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا.جتنا1998سے2011تک ایک ضلع کی آبادی میں اضافہ ہوا.اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں بڑے پیمانے پر پناہ گزین آباد ہیں۔طالبان رہنماء ملا منصور اختر جو نوشکی کے علاقے گچکی کے مقام پر امریکی ڈروا ن حملے میں مارے گئے کو بھی وہاں سے شناختی کارڈ جاری ہوا تھا.مزیدبرآں،افغان پناہ گزین جنہیں اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت اب تک پناہ گزین کیمپوں میں ہوناچائیے تھاجو حکومتی غفلت یا اس کی رضامندی سے رفتہ رفتہ مقامی آبادیوں میں باہم مدغم ہوتے گئے اور گزشتہ کسی بھی حکومت نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ مزید یہ کہ نادرا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اب تک 57فیصد لوگوں کو شناختی کارڈ جاری نہیں ہوسکے ہیں.اسی طرح فافن کی رپورٹ کے مطابق ہرچوتھی خاتون کو شناختی کارڈ نہیں ملی یا اسکا نام ووٹر لسٹو ں میں موجود نہیں.اس تمام تر صورتحال کو جانتے ہوئے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15مارچ سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں مردم شماری کرانے حکم دیا ہے.جو بلوچستان میں پہلے مراحلے میں کوئٹہ،خضدار ویگر اضلاع میں مقررہ تاریخ کو شروع ہوگی اس حوالے سے اساتدہ کو تربیت بھی دی جاچکی ہے اور یہ عمل افواج پاکستان کے زیر نگرانی ہو گا.لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ گزشتہ سال محکمہ داخلہ نے طالبان رہنماء مولانا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے ہلاکت کے فوری بعد افغان پناہ گرینوں کی وطن واپسی کا اعلان کیاتو اکثر پناہ گزین وطن واپسی کی تیاری میں لگ گئے مگر پتہ نہیں کس دباؤ کے تحتحکومتپاکستان نے انکی وطن واپسی کی تاریخ میں17مارچ تک توسیع کردی.اب جبکہ مردم شماری ہونے والاہے تو ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس طرح افغان پناہ گزینوں کو باقاعدہ شہریت دی جائے گی اگر نہیں تو اس حوالے سے محکمہ شماریات کیا اقدامات کرے گی.کیا اسکے پاس پناہ گزینوں کو جانچنے یاعلیحدہ رکھنے کے لیے کوئی پالیسی موجودہ ہے؟ اگر نہیں پھر وہ کس طرح مردم شماری کی شفافیت کو یقینی بنائے گی؟ اب جبکہ ملک میں ہونے والے مردم شماری سے بلوچستان میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے.اور اکثر سیاسی جماعتیں موجودہ صورتحال میں مردم شماری کو موزوں نہیں سمجھتے لیکن دوسیاسی جماعتیں ہر صورت میں مردم شماری کیلئے بے تاب ہیں.حالانکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم پرستی و مذہبی عقائدکے نام پرانہی جماعتوں نے اصل نمائندوں کی بجائے غیرمقامیوں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچایا.افغان پناہ گزینوں کے لئے نہ صرف لوکل سرٹیفیکٹ و شناختی کارڈ بنوائے بلکہ ووٹر لسٹوں میں انکااندراج کرکے انہیں پارٹی ممبر بنوایا.وہ انہیں پارٹی اثاثہ سمجھتے ہیں جس سے اصل عوامی نمائندے اضطراب کا شکارنظر آتے ہیں .اب چونکہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں تندوتیز بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جو کہ برادر اقوام کے درمیان ناگفتہ بہ صورتحال کو جنم دینے کا موجب بن سکتے ہیں. درحقیقت بلوچستان اس وقت بلوچ و پشتوں اوردیگر اقوام کے آپس میں الجھنے، تنگ نظری و متعصب رویوں کی کسی بھی صورت متحمل نہیں ہوسکتا.بلوچ و پشتون کی تاریخی باہمی رواداری کے رشتے کسی سے ڈھکے چھپے بھی نہیں.نہ اسے لسانی،علاقائی و قبائلی منافرت کی بھینٹ چڑھائی جا سکتی ہے. موجودہ صورتحال میں مجموعی طورپر بلوچ بحییثت قوم مردم شماری کو اپنے قومی بقاء و تشخص،شناخت و پہچان،کھو بیٹھنے اور افغان پناہ گزینوں کی جعلی اکثریت سے اکثریت بلوچ آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی سازش قرار دیتے ہیں.بی این پی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے تربت جلسے میں پارٹی موقف دیتے ہوئے واضح کیاکہ سپریم کورٹ تلور کے شکار کے فیصلے پر نظرثانی کرسکتی ہے تو بلوچستان میں مردم شماری کے فیصلے پر کیوں نہیں؟اسی طرح نیشنل پارٹی بھی مردم شماری کو بلوچ قوم کے زیست و موت کا مسئلہ گردانتے ہوئے یکجہتی جرگہ کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے.بی این پی عوامی بھی مردم شماری کو موجودہ حالات میں موزوں نہیں سمجھی اور دیگر قوم دوست قوتیں بھی ایک صفحے پرہیں.سابق وزیراعظم میرظفراللہ جمالی اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی نے بھی بلوچ قومی موقف کو دہرایا کیونکہ بلوچستان میں ہونے والے مردم شماری اس لئے بے سود ہوگی کیونکہ مردم شماری ملکی شہریوں یا مقامی لوگوں کی اصل آبادی جانچنے کیلئے ہو تی ہے جبکہ اس وقت بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں.انہیں مردم شماری سے دور رکھنے کی بھی کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آتی تو اس صورتحال میں مردم شماری کیسے اور کس کے لئے؟البتہ اگر حکومت چائے تو اسکا حل موجود ہے جس سے مردم شماری بھی متنازعہ ہونے سے بچ سکتی ہے اور تما م قومیتیں اور سیاسی جماعتیں بھی مطمئن ہوسکتی ہیں.حکومت کو چائیے کہ 1972کے مردم شماری میں رجسٹرڈ خاندانون کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جائے.جس میں بلوچوں کی آبادی 64.6فیصد اور پشتونوں کی آبادی 25.4فیصد تھی.اوراس کے ساتھ 1980کے دوران ملک میں داخل ہونے والے افغان پناہ گزینوں کا ریکارڈ یو این سی ایچ آرسے طلب کی جائے اور ان خاندانوں کی فوری وطن واپسی کو یقینی بنایاجائے.اگر انکی وطن واپسی ممکن نہیں تو انہیں صرف مردم شماری کے دوران مہاجر کیمپوں میں منتقل کیاجائے.اور اس عمل سے مقامی اسٹاف کو دور رکھ کر یہ ذمہ داری بین الاقوامی یا کسی دیگر غیر جانب دار اسٹاف کو سونپ دی جائے.تو یقین ہے.بلوچ قوم و دیگر قومیتیں اور تمام سیاسی جماعتیں بھی مطمئن ہونگی۔