|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2017

کوئٹہ:بلوچ اسٹوٖڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے 2011کو خضدار کے علاقے توتک آپریشن کے دوران تنظیم کے پانچ کارکنوں سمیت ایک درجن سے زائد بزرگوں و نوجوانوں کی گمشدگی کو چھ سال مکمل ہونے کے باوجود تاحال عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے ہزاروں سیاسی کارکن کئی سال گزرجانے کے بعد بھی لاپتہ ہیں۔ فورسز اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کی غیر انسانی کاروائیوں نے ہزاروں خاندانوں کو ذہنی پریشانیوں میں مبتلا کررکھا ہے۔ نوجوانوں و بزرگوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا جو سلسلہ ایک دہائی پہلے شروع ہوا تھا، وہ تاحال نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں روز بہ روز شدت آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18نومبر 2011کے آپریشن کے دوران قلندرانی فیملی کے بزرگوں و نوجوانوں سمیت ایک درجن سے زائد نہتے بلوچوں کو فورسز نے اغواء کیا تھا، جن میں بی ایس او آزاد کے کارکنان اورنگزیب، آفتاب، وسیم اور عتیق الرحمن قلندرانی سمیت 70سالہ محمد رحیم، فدا احمد، نثار احمد ، ڈاکٹر محمد طاہر ، ندیم بلوچ اور خلیل الرحمن تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے علاوہ توتک کے رہائشی اسی خاندان سے کئی نوجوان دوسرے شہروں سے بھی اٹھا کر لاپتہ کیے گئے ہیں اور ایک درجن کے قریب نوجوان مختلف کاروائیوں کے دوران شہید کیے گئے ہیں۔2013کو توتک سے ہی اجتماعی قبریں دریافت ہوگئیں تھیں جن میں کم از کم 160لوگوں کی لاشیں موجود تھیں، فورسز نے ان لاشوں کو اپنی تحویل میں لیکر میڈیا اور مقامی لوگوں سے چھپائے رکھا، جس سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ذہنوں میں کئی خدشات جنم لے چکے ہیں۔