|

وقتِ اشاعت :   February 25 – 2017

بلوچستان میں بہترتعلیمی نظام ہی مستقبل کو تابناک بناسکتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے حکومت کی اولین ترجیح پڑھالکھا بلوچستان ہے جس کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری پرعزم ہیں۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں تعلیمی میدان میں پیچھے ہے جبکہ یہاں کے طالبعلم مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں جن کے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں بعض طالب علم مالی حوالے سے تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔حکومت بلوچستان صوبے کے تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے اور ٹیچروں کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے کیونکہ اب بھی بعض جگہوں پر گھوسٹ اسکولوں کے ساتھ ٹیچر بھی صرف تنخواہ وصول کرتے ہیں جو کہ صوبے کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی ہے اور نوجوان نسل کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں اور جو بچے پڑھنے کے لیے اسکول جاتے ہیں تو وہاں ٹیچر موجود نہیں ہوتا، اس حوالے سے باقاعدہ رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے۔ حکومت ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائے۔ اس سے قبل ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کے دور ان گھوسٹ ٹیچروں کے خلاف کارروائی کی گئی توبعض نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلیک میلنگ کرکے احتجاج کیا اور دباؤبڑھانے کی کوشش کی۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑی مافیا ہے جس کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے ایسے لوگوں کے خلاف جب بھی حکومت کاروائی کرتی ہے تو یہ مختلف حربوں پر اتر آتے ہیں۔ بلوچستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے سب سے پہلے اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانا ناگزیر ہے تاکہ تدریسی عمل کا تسلسل برقرار رہے کیونکہ پرائمری سطح سے کامیابی کے ساتھ نکلنے والے بچے ہی بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔ اس لیے نہ صرف پرائمری سکولوں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ صوبے کے تعلیمی اداروں کوجدید طرز پر لانے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ یہاں کے طالبعلم اپنی پڑھائی اپنے صوبے کے اندر ہی مکمل کرسکیں کیونکہ دیگرصوبوں میں جاکر تعلیمی اخراجات پورے کرنا یہاں کے غریب نوجوانوں کے بس کی بات نہیں۔ بلوچستان وسائل سے مالامال صوبہ ہے اب یہ مزید ترقی کی جانب گامزن ہورہا ہے ، بڑے بڑے پروجیکٹس یہاں شروع ہورہے ہیں ان سے ملنے والی رقم کو تعلیم پر خرچ کرنے کی اشد ضرورت ہے اس سے بڑافائدہ صوبے کو ہی پہنچے گا کیونکہ یہیں کے نوجوان آنے والے وقت میں صوبے کی تعمیر وترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔ بلوچستان میں ماضی کی نسبت تعلیمی حوالے سے بہت بہتری آئی ہے مگر مزید بہترتعلیمی نظام اور اداروں کو فعال کرنا موجودہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ملک کے دیگر شہروں خاص کر لاہور،اسلام آباداور کراچی میں تعلیمی ادارے بہت زیادہ فعال اور جدید طرز سے ہم آہنگ ہیں اسی طرح اگر بلوچستان میں بھی تعلیمی معیار کو اس سطح پر لایاجائے تو وہ دن دور نہیں کہ دیگر صوبوں کے نوجوان یہاں کا رخ کرینگے۔ بلوچستان کے وسائل کا صحیح استعمال اگر تعلیم پر خلوص سے کیے جائیں تویہ خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔ آج صوبے میں امن وامان کی صورتحال بھی بہت بہتر ہوچکی ہے جس کا سہرا حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے سر جاتا ہے۔ بلوچستان کو تعلیم کے حوالے سے بھی ترجیح دی جارہی ہے جس کی مثال بجٹ میں تعلیم پر زیادہ رقم مختص کرنا ہے اور اس رقم کو خورد برد سے بچانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اس کے لیے حکومت چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا نظام مرتب کرے کہ تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا ایک ایک پائی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بہتری پر خرچ ہو، اس سے بلوچستان حکومت کی گڈ گورننس میں مزید بہتر ی آئے گی۔ بلوچستان میں اس وقت تعلیم اولین ترجیح ہونی چائیے ۔ آنے والے وقتوں میں بلوچستان خطے میں بڑا کردار ادا کرنے جارہا ہے اس کے نوجوان اپنا کردار اداکرنے کیلئے پُرعزم ہیں صرف انہیں موقع دینے اور ان پراعتمادکرنے کی ضرورت ہے۔