|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2017

واشنگٹن: بلوچستان کے وزیر داخلہ و قبائلی امور سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ اب بھی ہزاروں افغان طالبان ان کے صوبے میں موجود دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ کے افغان ریڈیو چینل ’دیوا‘سے بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بہت سارے مدارس میں افغان طالبان زیر تعلیم ہیں، جب کہ بہت سے مدارس ان کی ملکیت ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں موجود 30 ہزار سے زائد مدارس میں سے زیادہ تر قانونی ہیں اور وہ مذہبی تعلیم دینے پر سختی سے عمل پیرا ہیں، مگر ہزاروں مدارس ایسے بھی ہیں جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں اور ’انتہا پسندی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے لیے لوگ بھرتی کرتے ہیں‘۔ وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان مدارس میں سے زیادہ تر اپنے فنڈز بیرون ملک خاص طور پر عرب ممالک سے حاصل کرتے ہیں۔ وزیر مملکت کے مطابق حکومت ان مدارس کے منی ٹریل اور ان کی جانب سے ان پیسوں کے خرچ کی نگرانی کر رہی ہے، حکومت یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس رقم کو دینی مدارس کے تحت پاکستان میں کسی مشکوک سرگرمی اور انتہاپسندی کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ امین الحسنات شاہ نے بتایا کہ حکومت نے ان مدارس میں رجسٹریشن اور نصاب کے ذریعے اصلاحات لانے کا عزم کر رکھا ہے، اس لیے یہ تہیہ کیا گیا ہے کہ ان مدارس میں کسی بھی طرح کی انتہاپسندی سے منسلک سرگرمی کو مانیٹر کرنے کے لیے ان پر نظر رکھی جائے گی۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ احسان غنی نے بتایا کہ ’حکومت نے انسداد دہشت گردی سے متعلق نئی پالسیسی تشکیل دی ہے‘، جس میں مدارس کے نظام کی اصلاحات بھی شامل ہیں، انھوں نے بتایا کہ حکومت نے تمام غیر رجسٹرڈ مدارس کی رجسٹریشن کا تہیہ کررکھا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے خفیہ اداروں کے عہدیداروں اور ماہرین نے بتایا کہ ملک میں موجود غیر رجسٹرڈ مدارس پاک-افغان خطے میں انتہاپسندی میں اضافے کی وجہ ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’یہ مدارس انتہاپسند نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں اور طالبان کو ثابت قدم رہنے والے جنگجو مہیا کرتے ہیں، جو امریکی نواز افغان حکومت کے خلاف گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے خونی بغاوت میں ملوث ہیں’۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر انتہاپسند سرگرمیاں وسطی بلوچستان میں ہوتی ہیں، جہاں ساڑھے 5 ہزار مدارس بورڈنگ اسکول کے طور پر چل رہے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ بہت سارے ایسے مدارس بھی ہیں، جو حکومت کی نظروں سے بچے ہوئے ہیں اور وہیں سے دہشت گردی کے لیے سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ قندھار میں کیے گئے دھماکے کی منصوبہ بندی بلوچستان کے علاقے چمن میں موجود ماولاوی احمد مدرسہ میں کئی گئی، اس دھماکے میں متحدہ عرب امارات کے 5 سفارت کار ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹ میں حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد وشمار بھی شامل کیے گئے، جن کے تحت اندازے کے مطابق 5 ہزار سے زائد افغان باشندے صوبے بھر کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ مبینہ طور پر کوئٹہ کے قریبی علاقے کچلاک میں ایک مدرسہ چلا رہے ہیں۔
یہ خبر 27 فرروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی