|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2017

امریکی ریاست ہوائی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سفری پابندی سے متعلق نئے صدارتی حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ ہوائی کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ نیا حکم نامہ بنیادی طور پر پہلے جیسا ہی ہے اور انھوں نے اس کو ’مسلمانوں پر پابندی‘ کی نئی شکل قرار دیا۔ نئے حکم نامے کے مطابق چھ مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر 90 دن کی پابندی جبکہ تمام پناہ گزینوں پر 120 دن کی پابندی لاگو ہوگی۔ اس حکم نامے کا اطلاق 16 مارچ سے ہوگا۔ خیال رہے کہ جنوری میں سفری پابندیوں سے متعلق جاری کیے گئے ایک حکم نامے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے اور امریکہ کے ہوائی اڈوں پر شدید افرا تفری کا عالم تھا تاہم اس حکم نامے کو فیڈرل کورٹ نے فروری میں معطل کر دیا تھا۔ ہوائی کے اٹارنی جنرل ڈوگ چن نے نئے حکم نامے کے بارے میں کہا کہ ’اس میں کچھ تبدیل نہیں ہوا: اس میں بھی مسلم اکثریتی ممالک (ایک کو کم کر کے) سے آنے والوں کے داخلے پر وہی پابندی ہے۔‘ بدھ کو دائر کی جانے والی حالیہ درخواست میں نئے صدارتی حکم نامے کو ہنگامی طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت نئی سفری پابندی کے اطلاق سے ایک روز قبل 15 مارچ کو کی جائے گی۔ نئے حکم نامے کے مطابق ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں کی امریکہ داخلے پر 90 روز کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے۔ پہلے حکم نامے میں عراق کا بھی نام پابندی لگائے گئے ملکوں کی فہرست میں شامل تھا لیکن نئے حکم نامے میں اس کا نام خارج کر دیا گیا ہے۔ ڈوگ چن کا کہنا تھا کہ حکم نامے میں کی گئی تبدیلیوں کے باوجود اس میں ’پناہ گزینوں کے داخلے پر مکمل پابندی ہے۔‘ نئے حکم نامے میں تصدیق شدہ پناہ گزین اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں جبکہ شامی شہریوں پر عائد غیرمعینہ مدت کی پابندی ختم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس پابندی سے امریکہ میں قانونی طور پر رہائش پذیر افراد بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ نیا حکم نامہ گذشتہ حکم نامے کے برعکس مذہبی اقلیتوں کو ترجیح نہیں دیتا۔ نئے حکم نامے میں یہ ترامیم گذشتہ صدارتی حکم نامے کو امریکہ کی وفاقی عدالتوں کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد کی گئی ہیں۔ عدلیہ کا کہنا تھا کہ یہ پابندی غیرقانونی اور مسلمانوں کے خلاف ہے تاہم حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔ خیال رہے کہ ہوائی کا شمار بھی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پہلے صدارتی حکم نامے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ دوسری جانب‌ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے تاحال اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا، تاہم وہ اس سے قبل اس بات پر اصرار کر چکے ہیں کہ وہ ایسا صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کا حق رکھتے ہیں اور انھوں نے عدالتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ‘سیاسی’ اثرورسوخ کی حامل قرار دیا تھا۔