|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان صوبائی اسمبلی نے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں صفائی ، ٹریفک ،نکاسی آب کی ابتر صورتحال کا جائزہ لیکر اس کی بہتری کیلئے ااقدامات تجویز کرنے کیلئے 12رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دیدی جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کر کے اسمبلی کے اگلے سیشن میں اپنی تجاویز پیش کریگی اراکین اسمبلی کا محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں 400پوسٹوں کو قراندازی کے ذریعے تقسیم پر اظہار تشویش اقلیتوں کے مختص کوٹہ پر عملدرآمد سے متعلق قرارداد محرک نے حکومتی یقین دہانی کے بعد واپس لے لی گی کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کر دیا گیا بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس سوا گھنٹے کی تاخیر سے جمعہ کو چار بج کر پندرہ منٹ پر سپیکر پینل کی ممبر یاسمین لہڑی کی زیر صدارت شروع ہوا تو ارکان اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق ، مجید خان اچکزئی، زمرک خان,حسن بانو رخشانی ، اور شاہدہ روف نے اجلاس کو تاخیر سے شروع کرنے اور ایک صوبائی وزیر کے لئے انتظار کرنے پر احتجاج کیااور کہاکہ تمام اراکین کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کی پابندی کریں فرد واحد کے لئے اجلاس تاخیر سے شروع کرنا قوانین کے خلاف ہے اور یہ روایت نہیں ہونی چاہئے جس پر صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ اجلاس کسی کے لئے بھی تاخیر سے شروع نہیں کیا گیا تما م ارکان برابر ہیں اور وقت کی پابندی سب کی ذمہ داری ہے اجلاس کے دوران جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ روف کے سوال نمبر 299، 300،301کے جواب میں صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ محکمہ صحت کے تمام آفیسران باقاعدہ طریقے سے میرٹ کے ذریعے آئے ہیں جس میں سینارٹی کا خاص خیال رکھا گیا ہے بلوچستان کے تمام علاقوں کے آفیسران برابر ہیں اور کسی سے بھی زیادتی یا امتیازی سلوک نہیں برتا گیا جس پر شاہدہ روف نے کہاکہ انہیں آج پتہ چلا ہے کہ پنجگور ہی بلوچستان ہے محکمہ صحت نے ڈیڑھ سال پرانے آفیسر کانام دے کر ایوان میں غلط معلومات فراہم کی ہے ہمیں شکایت ملی ہے کہ من پسندلوگوں کونوازا جا رہاہے جس کے جوا ب میں صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ سنیئر آفیسران کے لوکل اور ڈومیسائل مانگنا ان کی توہین کے متراف ہے تمام آفیسران یہاں کے لوکل اور بلوچستان سن آف سائل ہے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ حکومت صوبے کے دیگر علاقوں کے آفیسران کو بھی برابری کی بنیاد پر ایڈجسٹ کرے نظر انداز ہونے کی وجہ سے آفیسران کو ہارٹ اٹک ہورہے ہیں جس بھی علاقے کا ڈاکٹر قابل ہوں اسے لگایا جائے اس سے تواز برقرار رہے گا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی مجید خان اچکزئی نے کہاکہ حکومت کی ترجیحات میں صحت اور تعلیم شامل ہے لیکن اب تک صحت اور تعلیم کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا صوبے میں اگر صحت کمیشن بنا دیا جائے تو 90فیصدمسائل حل ہوسکتے ہیں اور صحت کمیشن ایک ایکٹ کے ذریعے لایا جاسکتا ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے دوسری جانب دیگر صوبوں نے 40سال پہلے ہی یہ دونوں کمیشن تشکیل دیدیئے ہیں پوائنٹ آف آرڈر پر جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ روف نے کوئٹہ شہر میں ٹریفک نکاسی آب اور صفائی کی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ کوئٹہ شہر میں لوکل بس مالکان کا جہاں دل کرتا ہے اڈہ بنا دیتے ہیں پہلے سول ہسپتال کے سامنے اور اب سائنس کالج چوک پر بس اڈہ قائم کردیا گیا ہے جوکہ عوام کے لئے سیکورٹی تھرٹ تو ہے ساتھ ہی ا سے رش اور ٹریفک کی آمدرفت شدید متاثر ہے ہم نے لوگوں کے مسائل حل کرنے ہیں نہ ان کی جان خطرے میں ڈالنی ہے لہذا اس مسئلے کو ترجیح بنیادوں پر حل کیاجائے ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہاکہ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے جناح ٹاؤن گولی مار چوک ، جناح روڈ ، جوائنٹ روڈ ، سریاب روڈپر گدا گاڑیوں اور ٹرکوں کی وجہ سے تریفک کانظام درہم برہم ہے جبکہ شہر کی سڑکوں کے حالت انتہائی خستہ حال ہے بارش کے دو قطرے گر جائے تو کوئٹہ جسے لٹل پیرس کہا جا تا ہے کی صورتحال بگڑ جاتی ہے ہر طرف پانی کھڑا ہوجا تا ہے کوئٹہ درخت کاٹے جا رہے ہیں جبکہ گرین پاکستان سمیت دیگر منصوبوں پر بھی کام نہیں ہورہا ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی مجید خان اچکزئی نے کہاکہ ماضی میں فلڈ واٹر منصوبے میں 27ارب روپے کرپشن کی نظر ہوگئے سڑک پر جو سلیب لگائی گئی ہیں وہ صرف 5ٹن وزن برداشت کر سکتی ہیں جبکہ ایک ٹرک کا وزن 30سے 40ٹن سے زائد ہوتا ہے کوئٹہ میں کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے کیا وزیر اعظم کے اعلان کردہ 5ارب روپے سے 25سے 30لاکھ آبادی والے شہر کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے یقیناًً نہیں لاہور میں صرف صفائی کیلئے سالانہ 5ارب روپے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پٹیل روڈ پر ہسپتالوں کی اجازت کس نے دی جس کا دل کرتا ہے سڑک کنارے یا گلی میں کلینک اور ہسپتال کھول لیتا ہے ڈیری مالکان اور گیراج 15سال گزر نے کے باوجود کوئٹہ شہر سے باہر منتقل کیوں نہیں کئے جا رہے ہیں یہ تمام مسائل توجہ طلب ہیں اور ان پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اپوزیشن رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ 40سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئٹہ کی نالیاں بند ہیں کوئٹہ شہر کے 6ایم پی ایز نے 4سال تک جو اربوں روپے کا بجٹ لیا ہے اسے کہاں خرچ کیا میرے اپنے گھر کے ساتھ ایک شخص نے دو مکان گران پر پلازہ تعمیر کرلیا جس پر سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی حکم دیا کہ اسے تعمیر نہ کیاجائے لیکن چند بااثر شخصیات نے اس کا ساتھ دیا اور آج وہ پلازہ تعمیر ہوچکا ہے ارکان اسمبلی سردار رضا محمد بڑیچ اور حاجی اسلام بلوچ نے کہاکہ کوئٹہ سے باہر جانے والی تمام شاہراہوں پر بھی ٹریفک کی حالت ٹھیک نہیں ہے کوچ اور ٹرک ڈرائیور انتہائی تیز سرچ لائٹیں استعمال کر رہے ہیں جوکہ حادثوں کا سبب بنتی ہیں کوئٹہ میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو کی اشد ضرورت ہے مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی پرنس علی بلوچ نے کاکہ کوئٹہ میں گٹر کے پانی سے سبزیاں اگائی جا رہی ہیں جوکہ آنے والے نسلوں میں کینسر کا سبب بن رہی ہیں حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ لوکل بس اڈوں کے لئے جگہ آلاٹ کی گئی ہے جبکہ کیو ڈی اے کے جانب سے نئے اڈوں کے لئے بھی جگہ دے رہے ہیں موسیٰ کالونی میں ایک نیا اڈہ بھی بنایا جا رہاہے ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں ٹریفک کے نظام کو درست رکھیں جبکہ جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں محکمہ سی این ڈ ڈبلیو کے نوٹس میں لائی جائیگی ،جس کے بعد سپیکر پینل کی ممبریاسمین لہڑی نے رولنگ دی کہ کوئٹہ میں لوکل بس اڈوں ٹریفک نکاسی آب اور صفائی کی ابتر صورتحال کو دیکھنے کیلئے کوئٹہ سے منتخب ہونے والے 6ارکان اسمبلی سمیت ، شاہدہ روف ، ڈاکٹر شمع اسحاق ، مجید خان اچکزئی ،حاجی غلام دستگیر بادینی ، سردار رضا محمد بڑیچ، انجینئر زمرک خان اچکزئی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی جو کہ تیس دن کے اندر اپنے تی آو آر ز بنا کر کام کریگی اور اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کریگی ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کر تے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیترا نے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی 400پوسٹوں پر میرٹ کو پامال کرتے ہوئے قراندازی کے ذریعے پوسٹوں کو بانٹنے کی نشاندہی کی اور حکومت سے اس معاملے کی وضاحت بھی طلب کی مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ وہ خود اس بات کے گواہ ہے کہ آسامیاں میرٹ لسٹ بنانے کے برعکس قراندازی کے ذریعے تقسیم کی گئی ہے لوگ اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور مستحقین کی حق تلفی ہوئی ہے حاجی غلام دستگیر بادینی نے کہاکہ اگر قراندازی کے ذریعے پوسٹیں تقسیم کرنی ہے تو میرٹ کا نام ختم کردیا جائے لوگ دور دور سے کرائے خرچ کرکے کوئٹہ اآتے ہیں اور یہاں پوسٹوں کی قراندازیاں ہور ہی ہے صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ پچھلے چیف سیکرٹری نے وزیر اعلیٰ سمیت کابینہ کے فیصلوں کو ہوا میں اڑا دیا مجھے قراندازی کے معاملے کا علم نہیں ہے اسے متعلقہ صوبائی وزیر اور محکمے کے حوالے کرکے تحقیقات کی جائیں صوبائی وزیر سردار اسلم بزنجو نے کہاکہ چیف سیکرٹری نے جاتے جاتے صوبے میں گند مچا دیا اور اپنی مرضی سے گریڈ18کے آفیسران کے آرڈر جاری کردیا جن میں سے کچھ کے آرڈ ر کنیسل ہوگئے ہیں اور کچھ کے باقی ہیں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی مجید خان اچکزئی نے کہاکہ چیف سیکرٹری سیف اللہ کے ریٹائر ہونے کے بعد سب ان کے خلاف بول رہے ہیں لیکن میری نشاندہی کے باوجود پہلے کوئی نہیں بولتا تھا لیکن وہ یہ نا سمجھیں کہ ریٹائر ہونے کے بعد ان کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود نہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سب موجود ہے اور کسی بھی کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائیگا عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ کے ریٹائر ڈ ہونے کے بعد ان کے خلاف بات کرنا ٹھیک نہیں ہے جب انہوں نے وزیر وں کے بھائیوں بیٹوں بیٹوں کو نوکریوں پر لگایا تھا تب وہ اچھے تھے لیکن اب سب کو ان کی کرپشن نظر آرہی ہے یہ حکومت کی کمزوری ہے کہ وہ ایک چیف سیکرٹری یا اپنے محکمے کے سیکرٹریوں کو نہیں سنبھال سکتی اور اگر وہ انہیں سنبھال سکتے تو استعفیٰ دیدے بغیر ثبوت کے بات کرنا درست نہیں ہے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہاکہ ڈیڑھ سال سے مختلف آسامیاں التوا ء کا شکار تھیں ہم نے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ 15گریڈ سے اوپر کی پوسٹوں پر پبلک سروس کمیشن اور محکمہ صحت اور تعلیم کی ٹیکنیکل پوسٹوں پر ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے بھرتیاں کی جائیگی جہاں تک قراندازی کا معاملہ ہے تو جب متعلقہ صوبائی وزیر ایوان میں آئینگے تو وہ خود اس کی وضاحت اور تفصیل پیش کرینگے ۔اجلاس کے دوران پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اقلیتی رکن ولیم جان برکت نے قرارداد نمبر 126پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے آئین کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے لئے ہر شعبے میں ملازمتوں کے حصول کیلئے باقاعدہ طورپر 5فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے اور ان پر ملازمتوں کے حصول پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اس پرعملی طورپر کم و بیش عمل کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھتا جا رہاہے لہذا ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ سرکاری محکموں میں بھرتیاں کرتے وقت اقلیتی کوٹہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ قرارداد پر بات کرتے ہوئے ارکان اسمبلی زمرک خان اچکزئی میر عاصم کر دگیلو مجید خان اچکزئی ، جعفر مندوخیل ، پرنس علی بلوچ ، سردار عبدالرحمان کھیتران ، سردار رضا محمد بڑیچ ، ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ وہ قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیںآئین کے تحت اقلیتوں کے لئے 5فیصد کوٹہ مختص ہے ساتھ ہی اوپن میٹر میں بھی آسامیوں کے لئے مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن کم پوسٹوں پر اقلیتوں کو کوٹہ نہیں مل پاتا جس کے لئے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے اقلیتی برادری کی ملک کے لئے بہت سی خدمات ہیں ان کے لئے مختص کوٹہ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ، صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارت وال نے کہاکہ مذہب ، رنگ نسل کے نام پر کوٹہ نہیں ہونا چاہئے ہم سب جمہوری لوگ ہیں اور ہمارے حقوق برابر ہیں ہم چاہتے ہیں تمام سیٹیں میرٹ پر تقسیم کریں اور اگر صوبے میں اقلیتی کوٹہ پر عملدرآمد نہیں ہور ہاتو اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا کے بعد قرارداد کے محرک ولیم جان برکت نے اپنی قرارداد واپس لے لی قرارداد واپس لینے کے فوراً بعد جمعیت علماء اسلام کی رکن اسمبلی حسن بانوں رخشانی نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد اجلاس پہلے پانچ منٹ اور پھر پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کیا گیا لیکن کورم پورا نہ ہونے کے بعد اسپیکر پینل کی ممبر یاسمین لہڑی نے اجلا س سموار 13مارچ کی سہ پہر 4بجے تک ملتوی کردیا۔